ابتدائی درجہ کی تحریک

Initial level motivation

حقیقی شے دھرم کے لئیے ترغیب کے تین درجات

لم-رم ترغیب کے تین درجے پیش کرتا ہے:

  • ابتدائی درجہ – اس میں ہم اپنے آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہمارا پنر جنم بہتر قسم کا ہو گا، نہ صرف اگلی زندگی میں بلکہ آئیندہ تمام زندگیوں میں بھی۔
  • میانہ درجہ – اس میں ہمارا مقصد رو بہ تکرار اضطراری پنر جنم سے مکمل نجات حاصل کرنا ہے؛ ہم مکمل نروان چاہتے ہیں۔
  • ترقی یافتہ درجہ – ہم ایسا مہاتما بدھ بننا چاہتے ہیں جسے مکمل روشن ضمیری ملی ہو، تا کہ ہم اور سب لوگوں کی رو بہ تکرار اضطراری پنر جنم سے مکمل نجات حاصل کرنے میں مدد کر سکیں۔

 یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک درجہ کا وجود  پنر جنم کے مفروضہ پر مبنی ہے۔ پھر بھی، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، ان تمام درجات میں استعمال ہونے والے طریقے دھرم-لائٹ میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔ یہ محرکات کوئی ایسی چیز نہیں جسے ہم اہمیت نہ دیں، کیونکہ اگر ہم ان کو مناسب طور استوار کریں تو یہ نہائت کار آمد جنس ہیں۔

اپنی انسانی زندگی کی قدر و قیمت کو پہچان کر خود ترسی پر قابو پانا

اپنی تحریک کے ابتدائی مراحل میں ہمیں جو بات سب سے پہلے سمجھنا ہے وہ یہ کہ ہم اپنی "قیمتی انسانی زندگی" کی اہمیت کو پہچانیں۔ حتیٰ کہ دھرم-لائٹ کی سطح پر بھی یہ "میں بیچارہ" کے احساس اور اس سے پیدا ہونے والے مایوسی کے جذبات پر قابو پانے میں نہائت کار آمد ہے۔ ہم سب طرح کے ممکنہ بد ترین حالات کا تصور کرتے ہیں، اور اس بات کا احساس تشکر پیدا کرتے ہیں کہ ہمارے حالات ویسے نہیں ہیں۔

بد ترین ممکنہ صورتوں کی لمبی فہرست موجود ہے، لیکن ان سب کا احاطہ کرنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ ہم عام حالات کا تصور کر سکتے ہیں۔ مثلاً ہم اپنی خوش قسمتی پر اظہار تشکر کر سکتے ہیں کہ ہم کسی جنگ والے علاقے میں نہیں ہیں، اور نہ ہی کسی قحط سے دوچار ہیں جس میں ہم اور ہمارے بچے فاقہ کشی کا شکار ہوں۔ ہم اس بات پر بھی شکر گزار ہو سکتے ہیں کہ ہم کسی جابر حاکم کے زیر سایہ کسی پابندیوں کے شکار سماج میں نہیں ہیں۔ وہ بوڑھے لوگ جو یہاں رومانیہ میں رہتے ہیں وہ ان باتوں کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ہماری کس قدر خوش قسمتی ہے کہ ہم ذہنی، جسمانی یا جذباتی طور پر معذور اور اپاہج نہیں ہیں۔ بلکہ بودھی نقطہ نظر سے تو ہم اس بات پر بھی شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ایک لال بیگ نہیں ہیں جسے ہر کوئی مارنے کو دوڑتا ہے۔

اس قسم کی سوچ کے کئی پہلو ہیں، اور جب ہم اپنی صورت حال پر وسیع النظر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم کس قدر خوش قسمت ہیں کیونکہ ہمیں یہ مواقع میسر ہیں۔ ہمیں نہ صرف ان مسائل سے مکتی حاصل ہے بلکہ ہمیں یہ سمجھنا چاہئیے کہ ہم یہ مراعات کسی بھی وقت کھو سکتے ہیں، مثلاً اگر ہم الزہائیمر کا شکار ہو جائں۔ اس وقت ہم شدید معاشی بحران کی زد تلے ہیں اور حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ ہماری موجودہ صورت حال کو "مہلت" کہا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمیں نہائت برے حالات سے وقتی طور پر آرام ملا ہے۔ یہ مہلت کسی دم ختم ہو سکتی ہے۔

ان آزادیوں کے علاوہ، ہمیں ان عناصر پر نظر ڈالنی ہے جو ہماری زندگی کو خوشگوار بناتے ہیں۔ مثلاً، ہم میں سے بیشتر کافی حد تک صحت مند ہیں۔ بے شک ہم میں سے کئی ایک بیمار پڑ سکتے ہیں، لیکن اس وقت ہم کام چلا رہے ہیں۔ یہ مہاتما بدھ کی تعلیم تھی جو کہ نسل در نسل چلی آ رہی ہے اور آج بھی مہیا ہے۔ بہت سارے اساتذہ اور کتب موجود ہیں جن سے ہم یہ علم حاصل کر سکتے ہیں۔ بے شک ہمیں بہت سارے مواقع میسر ہیں۔ اس صورت حال میں، ہمیں ان آزادیوں اور سہولتوں کو تسلیم کرنا چاہئیے، اور تہ دل سے شکرانہ ادا کرنا چاہئیے کہ ہم کس قدر خوش قسمت ہیں۔

ویڈیو: گیشے لہاکدور ـ «میرا پیغام»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

موت اور عدم دوام پر توجہ دینا تا کہ ہم سنہری موقعے کھو نہ دیں

ابتدائی درجہ میں یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہماری یہ قیمتی زندگی ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ یہ محض اس بات تک ہی محدود نہیں ہے کہ زندگی کے دوران حالات بدلتے رہتے ہیں، بلکہ یہ کہ ہم سب کو ایک دن مرنا ہے۔ اس لئیے ہم دیکھتے ہیں کہ موت پر کئی مراقبے موجود ہیں۔ بہت سے معاشروں میں بہت سے لوگ موت کو نظر انداز کرتے ہیں، اسے ایک ممنوع موضوع قرار دیتے ہیں۔ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ ہم سب کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اس میں ہمارے عزیز و اقارب، ہماری جان پہچان کے سب لوگ، اور ہم بذاتِ خود شامل ہیں۔ یہ حقیقت ہے۔

اس حقیقت کے بے شمار شواہد موجود ہیں کہ ہمیں یقیناً موت آۓ گی۔ ہر وہ انسان جو جیا وہ آخر کار مر گیا، تو ہم ان سے کیوں مختلف ہیں یا ہمارے اندر کیا خاص بات ہے؟ موت کی سب سے بڑی وجہ پیدائش ہے، پس اگر ہم پیدا ہوۓ ہیں تو ہمیں مرنا لازم ہے۔ ہمارا جسم بہت کمزور ہے اور عمر رسیدگی کے ساتھ اس میں شکست و ریخت شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اتنا مضبوط نہیں ہے جتنا کہ ہم اسے سمجھتے ہیں، اور یہ آسانی سے زخمی ہو سکتا ہے۔ ہمیں اس بات کو دلیل کے ذریعہ سمجھنا ہے تا کہ ہم اس کے متعلق جذباتی نہ ہوں۔

اس حقیقت کے علاوہ کہ ہماری موت یقینی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس کی آمد کا وقت ہمیں معلوم نہیں۔ ہماری موت کا تعلق عمر یا بیماری سے نہیں ہے؛ بہت سارے جوان اور صحت مند لوگ بوڑھے اور بیمار لوگوں سے کہیں پہلے چل بستے ہیں۔ حال ہی میں ایک بڑا جہاز کا حادثہ ہوا، لیکن جب لوگ جہاز میں سوار ہوۓ تھے تو کسی کو اس بات کا گمان نہیں تھا کہ یہ حادثے کا شکار ہو گا۔ ہم کسی وقت بھی بس کے نیچے آ سکتے ہیں۔ میرا عزیز ترین دوست جس کی عمر ۵۴ برس تھی اور وہ بالکل صحت مند تھا دو ہفتے قبل دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہو گیا۔

موت کے ناگہاں ہونے کے کئی شواہد موجود ہیں۔ موت اس بات کا انتظار نہیں کرے گی کہ ہم پہلے اپنا کام مکمل کر لیں، یا ہمیں کھانا ختم کرنے کی مہلت ملے یا جو بھی ہم کر رہے ہوں۔ ہم موت سے یہ نہیں کہ سکتے، "ذرا ایک منٹ ٹھرو، مجھے یہ ختم کر لینے دو۔" جب موت آتی ہے تو بس آ جاتی ہے، اور ہماری زندگی تمام ہو جاتی ہے۔ جب ہمارا وقت پورا ہو جاۓ تو ہم اسے بڑھانے کے لئیے کچھ نہیں کر سکتے۔آپ موت کو رشوت نہیں دے سکتے۔ ہم کسی آلۂ تنفس کی مدد سے اپنے جسم کو زندہ تو رکھ سکتے ہیں، مگر ایسی بے حس حالت کس کام کی کیونکہ پھر بھی کسی نہ کسی وقت دم تو نکلنا ہی ہے۔

موت کے متعلق تیسری بات جس کا ہمیں جائزہ لینا ہے وہ یہ ہے کہ بسترِ مرگ پر کونسی چیز ہمارے لئیے کار آمد ہو گی۔ ہم اپنے ساتھ روپیہ پیسہ، دوست احباب، یا گھر والے، کچھ بھی نہیں لے جا سکتے۔ اگر ہم کوئی ہرم تعمیر کریں اور اپنی موت کے وقت ان سب کو اس میں بند کر دیں، تو وہ حقیقت میں ہمارے ساتھ تو نہیں جا رہے۔ بدھ مت کے نظریہ کے مطابق، بوقتِ مرگ، جو شے ہمارے کام آۓ گی وہ من کے تسلسل پر قائم وہ مثبت عادات و اطوار ہیں جنہیں ہم نے پروان چڑھایا۔

یہ ممکن ہے کہ ہم نے بہت سا مثبت کام کیا ہو اور لوگوں کی مدد کی ہو، یا شائد ہم نے روحانی راہ پر غصہ، خود غرضی، وغیرہ پر قابو پا کر بہت ترقی کی ہو۔ اس سے ہمارے من کے تسلسل پر گہرا اثر ہو گا۔ دھرم- لائٹ نقطہ نظر سے سکون کی موت مر سکتے ہیں، اس احساس کے ساتھ کہ ہم نے ایک قابلِ قدر، مثبت زندگی گزاری ہے، خاص طور پر اگر ہم نے اپنے عزیز و اقارب کا خیال رکھا، اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اگر ہم نے معاشرہ کے لئیے کوئی بھلائی کا کام کیا تو ہمیں من کے سکون کا احساس ہو گا معہ اس خیال کے کہ "میں نے ایک اچھی، قابلِ قدر زندگی گزاری۔"

اگر ہم حقیقی شے دھرم کے نقطہ نظر سے سوچیں تو ہم اس تیقن کے ساتھ سدھار سکتے ہیں کہ ہماری یہ مثبت عادات اور فطری رحجان ہمارے من کے چلار پر ہماری آئیندہ زندگیوں میں بھی قائم رہیں گے۔ ہم اس احساس کے ساتھ رخصت ہوں گے، "آئندہ جنم میں بھی ہماری پیدائش انسان کی صورت میں ہو گی۔ میں ایک انسان کا بچہ ہوں گا جس کی فطری اصناف نہائت مثبت ہوں گی۔" ہم یہ بات خود اپنے بچوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ بعض بچے بچپن سے ہی رونی صورت اور غصہ سے بھرے ہوتے ہیں، جبکہ بعض دوسرے بچے ہمیشہ شانت اور دوسروں پر مہربان ہوتے ہیں۔ یہ ان مثبت عادات کا نتیجہ ہے جو انہوں نے گزشتہ زندگیوں کے دوران استوار کیں۔ اگر بوقتِ مرگ ہمارا من پر سکون ہو گا تو اس سے بہت مدد ملے گی۔ موت کے وقت ہمارا بینک میں رکھا ہوا پیسہ کسی تشفی کا سبب نہیں ہو گا، کیونکہ اس وقت یہ کمپیوٹر کی سکرین پر محض کچھ اعداد ہوں گے۔

موت پر مراقبہ

مندرجہ بالا کے پیش نظر، ہم موت پر مراقبہ کرتے ہیں جس میں ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ آج ہماری زندگی کا آخری دن ہے۔ ہم اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں، کیا میں کسی وقت بھی مرنے کو تیار ہوں؟ اگر میں آج مر جاؤں تو کیا مجھے اس بات پر پچھتاوا ہو گا کہ میں نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟ بے شک اس کام کا مقصد دل شکستہ ہونا نہیں ہے، بلکہ اپنی اس قیمتی انسانی زندگی اور اس سے وابستہ تمام عمدہ موقعوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ یہی اس مراقبے کا اصل مقصد ہے۔ یہ محض اس حقیقت کی پہچان ہی نہیں کہ ہم دن بہ دن عمر رسیدہ ہوتے جا رہے ہیں، بلکہ یہ کہ میں لگا تار اپنی موت کے قریب تر ہوتا جا رہا ہوں۔ جوں ہی ایک دن اختتام پذیر ہوتا ہے، اس سے ہماری زندگی کا ایک دن کم ہو جاتا ہے۔ وقت تیزی سے بھاگ رہا ہے اور ہمیں کچھ اندازہ نہیں کہ ہمارا کتنا وقت باقی ہے۔ لہٰذا ہم اپنی زندگی سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ ایسی حالت میں مرنا جس میں ہمیں شدت سے اس بات کا احساس ہو کہ ہم نے اپنی زندگی بیکار میں گنوائی اور یہ کہ ہم بہت کچھ کر سکتے تھے، یہ من کی نہائت افسوسناک حالت ہو گی۔

ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہے اور "میں عمدہ مواقع ضائع نہیں کروں گا" جیسی من کی متوازن حالت استوار کرنا ہے۔ ہمیں سر پھرے، خوف کے مارے انسان بننے سے گریز کرنا ہے، جو کام کرنے یا مراقبہ کرنے سے خوف زدہ ہوں۔ ہمیں پر سکون ہونا چاہئیے اور اگر ضرورت ہو تو کچھ آرام کرنا چاہئیے، تا کہ ہم قوت بحال کر سکیں جو بعد میں ہمارے کام آۓ۔ میرا پسندیدہ زین مقولہ ہے: "موت کبھی بھی آ سکتی ہے۔ خاطر جمع رکھو۔" اگر آپ اس پر ذرا غور کریں تو یہ بہت عقل کی بات ہے۔ کیونکہ ہم کسی وقت بھی موت کے منہ میں جا سکتے ہیں، لیکن اس کے متعلق فکر مندی اور  متشدد بیکار ہے۔

اصل مقصد اس انتہائی قیمتی انسانی زندگی سے متوازن ڈھنگ سے فائدہ اٹھانا ہے جو ہمیں ودیعت ہوئی ہے۔ جب ضرورت پڑے تو ہمیں آرام کرنا چاہئیے، اور جب ہم تھکے ہوۓ نہ ہوں تو ہمیں ایمانداری سے کام لینا چاہئیے، ہم محض سستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی لگن کو ذہن میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔

بے شک موت پر مراقبہ کا دھرم- لائٹ اور حقیقی شے دھرم دونوں میں ہی اطلاق ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب ہم ان کاموں کا سوچیں جو ہم نے ادھورے چھوڑے، جیسے کسی سے یہ کہنا کہ ہم ان سے کس قدر پیار کرتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں جو انہوں نے ہمارے لئیے کیا، یا کسی سے معافی مانگ کر ان سے صلح کر لینا، تو ایسی صورت میں بالکل مزید انتظار نہیں کرنا چاہئیے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کل کو وہ شخص نہ رہے یا ہم ہی نہ رہیں۔ موت سے آگہی سے ہم یہ سبق دھرم- لائٹ کے لئیے سیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہر سطح پر نہائت مفید اور معاون ہے؛ موت سے انکار مت کرو مگر اس کے لئیے تیار رہو۔ ہم اپنی موت اور جنازہ اٹھنے کا تصور کر سکتے ہیں، جس سے یہ ہمارے لئیے مزید حقیقت کا روپ دھار لے گا۔ بس اس بات کا خیال رکھیں کہ اس پر ہی تکیہ نہ کر بیٹھیں اور یوں افسردہ اور پژ مردہ ہو جائیں۔

بعد از موت بد ترین صورت میں پنر جنم کے بارے میں خوف سے ہمکنار ہونا

اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ہمارے مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے۔ یہاں اس چیز کا بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ کونسی بد ترین پنر جنم کی صورتیں ہیں جن سے ہمارا پالا پڑ سکتا ہے، اور اس بات کو کیسے سنجیدگی سے لینا چاہئیے۔ یہ کوئی آسان بات نہیں ہے کیونکہ بدھ مت میں اس میں محض جانوروں کی شکل میں ہی پنر جنم ممکن نہیں ہے جو کہ ہماری موجودہ حالت سے بد تر ہے بلکہ ایسی اشکال بھی جو ہمارے تصوّر میں نہیں ہیں۔

جب ہم جانور کی شکل میں پنر جنم کا تصور کرتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ اس میں ہر قسم کے حشرات، مچھلیاں اور ان کی تمام نسلیں شامل ہیں۔ یہ بات کہ جانوروں کی دنیا میں جنم لینا کس قدر خوفناک ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ بے حد ڈر اور دکھ بھری زندگی بتاتے ہیں، کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جب ہم جانور کی شکل میں پنر جنم کا سوچتے ہیں تو ہم کسی ایسے پوڈل کا تصور نہیں کرتے جسے ناخن پالش لگی ہو اور وہ کسی عالیشان حویلی میں رہائش پذیر ہو۔ بلکہ ہم لال بیگ اور چوہوں کا تصور کرتے ہیں جنہیں بیشتر لوگ حقارت سے دیکھتے ہیں، اور ایسے کیڑے مکوڑے اور مچھلیاں جنہیں بڑے جانور زندہ ہی نگل جاتے ہیں، اور پھر وہ جانور بھی جنہیں انسان کاروباری مقصد کے لئیے پالتے اور ذبح کرتے ہیں۔

ایسی مستقبل میں پیش آنے والی ممکنہ صورت حال کے متعلق جو جذبہ جنم لیتا ہے اس کا ترجمہ اکثر "خوف" کیا جاتا ہے، مگر میں اس لفظ کے استعمال سے مطمٔن نہیں ہوں، کیونکہ اس سے نا امیدی کا شائبہ ہوتا ہے، جیسے کہ ہم اس کا کوئی حل نہیں نکال سکتے۔ حالانکہ، ہم اس سے بچنے کے لئیے کچھ کر سکتے ہیں، لہٰذا میں لفظ "دبکنا" کو ترجیح دیتا ہوں، جس کا مطلب اس کے وقوع پذیر ہونے سے پُر زور گریز ہے۔

مثال کے طور پر، فرض کیجئیے کہ ہمیں کوئی نہائت اکتا دینے والی میٹنگ میں شمولیت کرنا ہے۔ ہم اس میں جانے سے دبکتے ہیں۔ یہ نا خوشگوار اور بیزار کن ہو گی، لیکن ہم جانے سے ڈرتے نہیں ہیں۔ ہمیں ایسا جذبہ پیدا کرنا چاہئیے۔ ہمارے پاس یہ بیش قیمت زندگی ہے جسے ہم کسی بھی لمحہ کھو سکتے ہیں، لہٰذا ہم اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اس امر کی یقین دہانی کے لئیے کہ ہم آئیندہ زندگی میں لال بیگ نہ بن جائیں۔ ایک لال بیگ ہونا خاصا قبیح ہو گا اور ہم ایسا بالکل نہیں چاہیں گے، لہٰذا ہمیں اس سے بچنے کے لئیے ضرور کچھ کرنا ہے۔

حقیقی شے دھرم میں ہم نہ صرف جانوروں اور حشرات کی شکل میں پنر جنم کی بات کرتے ہیں، بلکہ بھوت کی شکل میں یا دوزخ میں پنر جنم کی بات بھی کرتے ہیں۔ ہمیں انہیں اس فہرست میں شامل کرنے میں کوئی خجا لت محسوس نہیں کرنی چاہئیے؛ ان باتوں کو چھپانا بدھ مت کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔ اس کی نسبت ہم ایمانداری سے کام لیں اور کہیں، "مجھے اس کی بخوبی سمجھ نہیں ہے۔"

پنر جنم کی غیر انسانی اشکال کو کیسے سمجھا جاۓ

ہم اسے من کی کاروائی کے طور پر سمجھ سکتے ہیں ، یا بالفاظ دگر، ہر لمحہ کسی بات کو محسوس کرتے ہوۓ۔ ہر لمحہ ہمارے من میں ایک سہ ابعادی تصویر ابھرتی ہے جس سے مراد کسی چیز کو دیکھنا، جاننا یا اس کے متعلق سوچنا ہے، وغیرہ  وغیرہ۔ اس تجربہ کے ہر لمحہ کے ہمراہ مسرت یا عدم مسرت کا احساس ہے۔ در اصل یہی وہ چیز ہے جو ہمارے اور کمپیوٹر کے درمیان تمیز کرتی ہے۔ کمپیوٹر کے اندر معلومات موجود ہیں، جس سے وہ کام لیتا ہے اور ایک طرح سے جانتا ہے۔ لیکن کمپیوٹر خوش یا نا خوش نہیں ہوتا، اور نہ ہی یہ معلومات کو محسوس کرتا ہے۔ ہمارے مسرت اور عدم مسرت کے محسوسات ہمارے تجربہ کو بیان کرتے ہیں، اور یہ کہ مسرت اور عدم مسرت کا طیف نہائت وسیع ہے۔ اس طیف کے احساس کی مقدار کا انحصار ہمارے رختِ ثابت پر ہے، دوسرے لفظوں میں، ہمارا جسم کس قسم کا ہے۔

اسے محض مسرت اور عدم مسرت کے حوالے سے ہی سمجھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ ہمارے ہر ایک احساس کے حوالے سے بھی اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ دور تک دیکھ سکتے ہیں، بعض دوسروں سے بہتر سماعت رکھتے ہیں، اور بعض لوگ گرمی سردی دوسروں کی نسبت بہتر برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جہاں تک جانوروں کا تعلق ہے، کتا انسان کی نسبت کافی ہلکی آواز سن سکتا ہے کیونکہ اس کے جسم کی ساخت مختلف ہے لہٰذا اس کا رختِ ثابت بھی مختلف ہے۔ ایک باز نگاہِ باز سے انسانی آنکھ کی نسبت کہیں زیادہ دور تک دیکھ سکتا ہے۔ اگر یہ سب مختلف محسوسات کے متعلق سچ ہے تو یہ مسرت اور عدم مسرت کے طیف کے متعلق سچ کیوں نہیں ہو سکتا؟

ہم اس بحث میں دکھ اور سکھ کو شامل کر سکتے ہیں، اگرچہ وہ ہو بہو متشابہ نہیں ہیں۔ مسرت اور عدم مسرت کا تعلق من سے ہے، حبکہ دکھ اور سکھ ، جیسا کہ ہم ان الفاظ سے انگریزی زبان میں واقف ہیں، زیادہ تر جسمانی محسوسات ہیں۔ ہمارے انسانی رختِ ثابت کے سلسلہ میں، جب جسمانی دکھ حد سے گزر جاۓ تو ہم بیہوش ہو جاتے ہیں۔ جذباتی دکھ سے، ہمیں صدمہ پہنچتا ہے اور ہمارا جسم ماؤف ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب، شادمانی دلچسپ شے ہے۔ اگر آپ کھجلی کا معائنہ کریں، تو یہ در اصل شدید مسرت کا احساس ہے۔ یہ قطعاً تکلیف دہ نہیں ہے، بلکہ در اصل بے حد مسرت بخش ہے اور ہم فطرتاً کھجلی کر کے اسے تباہ کر دیتے ہیں۔ شدید کھجلی جِلد کی پرانی بیماریوں کے علاج کا ایک طریقہ ہے، یعنی کھجلی کو مسرت کا سبب جاننا۔ اس سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرنا بہت ترقی یافتہ اور نہائت مشکل کام ہے، خصوصاً اگر خارش کرنے سے نقصان ہونے کا امکان ہے۔ اگرچہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ بہر حال، اگر ہم جنسی لذّت کے متعلق سوچیں، تو یہ جس قدر شدت اختیار کرتی ہے، ہم اتنا ہی جلدی طغیانِ شہوت سے گزر کر اسے تباہ کر دیتے ہیں۔

پس ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری یہ انسانی رختِ ثابت مسرت اور عدم مسرت، اور دکھ اور سکھ کے طیف کے کچھ حصہ کو محسوس کر سکتی ہے۔ ہم پہلے ہی یہ دیکھ چکے ہیں کہ جانور بعض محسوسات جیسے بصارت اور سماعت کو زیادہ شدت سے محسوس کر سکتے ہیں۔ لہٰذا بہ لحاظ تعقّل یہ ممکن ہے کہ اور بھی کئی قسم کے رختِ ثابت موجود ہوں جو دکھ اور سکھ، مسرت اور عدم مسرت کے طیف پر زیادہ شدت سے محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ کیوں نہیں؟

جب ہم ایک زندگی سے دوسری زندگی کے تسلسل کی بات کرتے ہیں تو در اصل ہم من کی اس کاروائی کا حوالہ دیتے ہیں۔ تو اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ شدید دکھ درد اور انتہائی مسرت اور شادمانی کے مکمل طیف کو محسوس نہ کرے۔ اس کا انحصار ہمارے ہر زندگی میں میسر رختِ ثابت پر ہے۔ بدھ مت میں پائے جانے والے یہ دیگر نامیاتی اجسام، جو ہماری آنکھ سے اوجھل ہیں، انہیں وسعت نظر سے پہچاننے کا یہ ایک عقل پر مبنی طریقہ ہے۔ ہم امیبا کو دیکھ تو نہیں سکتے، لیکن بہر حال، خوردبین میں سائینسی ترقی کی بدولت، ہم انہیں بطور نامیاتی اجسام قبول کر سکتے ہیں۔ اسی طرح، ہمیں بھوت نظر نہیں آتے، لیکن من کو استوار کرنے سے، شائد یہ ممکن ہو۔

دھرم-لائٹ روپ بقیہ تمام عالمین کو مختلف اقسام کے انسانی تجربات کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، کوئی شخص اس قدر ذہنی پریشانی کا شکار ہو سکتا ہے کہ اسے محسوس ہو کہ وہ دوزخ میں رہ رہا ہے۔ اس پر ہم اس کے لئیے ہمدردی کا اظہار کر سکتے ہیں، اور اس بات کی تمنا کر سکتے ہیں کہ آئندہ وہ کبھی اس سے دوچار نہ ہو۔ یہ دھرم-لائٹ کی سطح پر ایک مناسب کاروائی ہے۔ البتہ، حقیقی شے دھرم انسانی تجربہ کی بات نہیں کر رہا، بلکہ ان تجربات کی بات کر رہا ہے جو من کے تسلسل پر ہمیں اور باقی سب لوگوں کو پیش آ سکتے ہیں۔ اس من کی کاروائی کے ہمراہ مسرت اور عدم مسرت، دکھ اور سکھ کے طیف پر پاۓ جانے والے محسوسات بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم یقیناً کوئی ایسی بنیاد قائم نہیں کرنا چاہتے جو محدود ہو اور جس کا مستقبل میں محض خوفناک معاملات سے ہی واسطہ ہو۔ یہ صاف ظاہر ہے۔

کیا اس سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے! سب سے پہلے ہمیں اپنی زندگی کو ایک مثبت راہ پر گامزن کرنا ہے، جس کی بدولت ہم ان بد ترین پنر جنموں سے چھٹکارا پا سکیں۔ در حقیقت اس سے محض یہ ہی نہیں ہو گا، بلکہ اس سے ہمیں مکش اور روشن ضمیری بھی ملے گی۔

اپنی زندگی کو محفوظ راہ پر ڈالنا: پناہ لینا

میں اس اصطلاح "پناہ" کو خاص پسند نہیں کرتا جو کہ قدرے مجہول لگنے کے سبب گمراہ کن محسوس ہوتی ہے، جیسے کہ ہم مہاتما بدھ کے پاس پناہ مانگنے جاتے ہیں، "اے مہاتما بدھ، مجھے بچا لو!" اور نہ ہی یہ کوئی ایسی بات ہے کہ ہم جانور ہیں جنہیں کسی جنگلی جانوروں کی پناہ گاہ میں لیجایا جا رہا ہے۔ ہم کسی نہائت فعال، نہ کہ مجہول  چیز کی بات کر رہے ہیں۔ میں اسے ہماری زندگیوں میں "محفوظ سمت" ڈالنا کہنا پسند کرتا ہوں؛ اگر ہم اس ڈگر پر چلیں، تو ہم بد ترین پنر جنموں سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں، اضطراری، رو بہ تکرار پنر جنم سے مکمل طور پر، اور دوسروں کی موثر طور پر مدد کرنے کی نا اہلیت سے بھی نجات پا سکتے ہیں۔

لفظ "دھرم" جس کا ترجمہ عموماً مہاتما بدھ کی تعلیمات کیا جاتا ہے، در اصل ایک حفاظتی اقدام کی جانب حوالہ ہے۔ یہ کوئی ایسی جنس ہے جسے ہم اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں تا کہ مستقبل میں در پیش مسائل اور مصائب کو روکیں یا ان سے بچیں۔ ہم ان تدبیروں کو اپنی زندگی میں شامل کر لیتے ہیں تا کہ تین مسائل یعنی بد ترین پنر جنم، پنر جنم سے مکمل چھٹکارا، اور دوسروں کی بھر پور مدد کرنے کی عدم صلاحیت سے نجات حاصل کر لیں۔

یہ کونسی سمت ہے جس کا مہاتما بدھ نے ذکر کیا ہے؟  یہ وہ ہدائت ہے جو مہاتما بدھ نے خود پائی، اور جو تمام رکاوٹوں، کمزوریوں، الجھنوں اور پریشان کن جذبات کی بندش ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی مہاتما بدھ نے من کی تمام مثبت صلاحیتوں کو پا لیا ہے۔ یہ ہے وہ سمت جس کی ہم بات کر رہے ہیں۔ در حقیقت جب ہم مہاتما بدھ، دھرم اور سنگھا کے بیش قیمت، نایاب جواہر کی محفوظ سمت کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہی ہے۔ در اصل دھرم ہی وہ شے ہے جسے مہاتما بدھ نے پایا اور اس کی وہ تعلیمات کہ ہم اسے کیسے پا سکتے ہیں۔ مہاتما بدھ کسی ایسی ہستی کا ظہور ہے جس نے اسے مکمل طور پر حاصل کیا ہے۔ سنگھا سے مراد محض وہ لوگ ہی نہیں جو پاٹھ شالا یا بدھ مرکز میں ہیں بلکہ پوری بھکشو برادری۔ در حقیقت، یہ بھی ہماری محفوظ سمت نہیں ہے۔ سنگھا، تین جواہر کے ایک انگ کے طور پر، وہ بر گزیدہ ہستیاں ہیں، جنہوں نے اس کا کچھ حصہ پا لیا ہے جسے ایک مہاتما بدھ نے مکمل طور پر پایا ہے۔

پس، ہم نے پہلے یہ کام کرنا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کو پورے خلوص کے ساتھ محفوظ سمت پر ڈالنا ہے؛ یعنی ہم کیا پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم وہ پانے کی کوشش کر رہے ہیں جسے ایک مہاتما بدھ نے پا لیا ہے، جس طرح ایک مہاتما بدھ نے مکمل طور پر کیا ہے، اور وہ طریقہ جس سے سنگھا نے اس کا کچھ حصہ پایا ہے۔ اس ہدائت کو اپنی زندگی میں شامل کرنے سے ہر سطح پر بہت بڑا فرق پڑتا ہے، کیونکہ اب ہماری زندگی کا کوئی مقصد ہے اور اس کی کوئی راہ متعیّن ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں پر قابو پانے اور اپنی صلاحیتوں سے پورا فائدہ اٹھانے کی خاطر اپنے آپ کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں، تو ہم عموماً جذباتی طور پر خوش ہوں گے، کیونکہ ہم ایسا نہیں سوچیں گے، "میں نہیں جانتا کہ جیون کا مقصد کیا ہے۔ میں یہاں کیا کر رہا ہوں؛ میری زندگی بے معنی ہے۔" یہ من کی ایک بد ترین حالت ہے، اور جب لوگ اس سے دوچار ہوتے ہیں، تو عام طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی زندگی کا محور پیسہ ہے۔ اگرچہ یہ ایک رٹا پِٹا فقرہ ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ "دولت سے مسرت نہیں خریدی جا سکتی۔"

نقصان دہ رویہ سے پرہیز

اب ہم نے یہ محفوظ راہ اپنی زندگی میں پکڑ لی ہے۔ اس کی بنیاد پر، بد تریں پنر جنموں سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم جسمانی، زبانی یا من کے استعمال سے سر زد تباہ کن اطوار کو ترک کر دیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان تینوں سے اس قسم کے جذبات مثلاً غصہ، لالچ، لگاوٹ، بھولپن، حسد، تکبر اور بے شمار ایسے ہی دوسرے جذبات کے اثر تلے آنے سے گریز کریں۔ اس بیش قیمت انسانی زندگی سے اس دم فائدہ اٹھانے کا بہترین طریقہ، ابتدائی سطح پر، نقصان دہ عمل، گفتار، اور وچار سے پرہیز ہے۔

تاہم ہمیں اسے بدھ مت کے دائرہ عمل کے تحت کرنا ہے۔ عمومی طور پر، تمام مذاہب ہمیں تباہ کن رویہ مثلاً قتال اور سرقہ سے پرہیز کی تلقین کرتے ہیں، مگر بدھ مت کا امتیازی نظریہ یہ ہے کہ یہ کوئی قانون نہیں ہے۔ ایسا کوئی قانون کسی خدا نے یا کسی مقنّنہ نے یا سرکار نے وضع نہیں کیا ہے۔ بدھ مت کی اخلاقیات کی بنیاد کسی قانون کی پابندی نہیں ہے جیسا کہ، " قانون کی اطاعت کرو ، وگرنہ تم سزا کے مستحق ہو گے۔" دیوانی قانون کے سلسلہ میں، ہم رشوت دے کر کوئی اچھا سا وکیل کر کے سزا سے بچ سکتے ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اگر ہم قانون کی اطاعت کریں تو ہم اچھے انسان سمجھے جائں گے، اور اگر قانون کی نا فرمانی کریں تو برے انسان یا مجرم قرار پائں گے۔ بودھی اخلاقیات کی بنیاد اطاعت نہیں ہے۔

تعمیری رویہ اختیار کرنا

یہ بات جاننا ضروری ہے کہ بدھ مت میں تعمیری رویہ سے کیا مراد ہے۔ ہم منفی رویہ کو دیکھ کر اسے جان سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جان سے مارنے یا جان لینے کا ایک طریقہ شکار ہے۔ لیکن اگر ہم نے کبھی شکار نہیں کیا اور نہ ہی اس میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں، تو ہمارا شکار نہ کرنا کوئی تعمیری رویہ نہیں گردانا جاۓ گا، اگرچہ یہ ایک احسن فعل ہے۔

تعمیری رویہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی مچھر کو مارنا چاہیں، مگر اس پر عمل نہ کریں۔ ہم یہ بات سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اس پر عمل کریں، تو یہ غصے کا اظہار ہو گا، جس میں ہم محض اپنی ہی ذات پر مرتکز ہیں۔ علاوہ از ایں، ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم مچھر کو مار دیں گے تو اس سے ہماری یہ عادت پختہ ہو گی کہ جو شے ہمیں پسند نہ ہو اسے مار دیا جاۓ۔ لہٰذا مچھر کو مارنے کی بجاۓ ہم اس کا کوئی پر امن حل نکالتے ہیں، جیسے اسے کسی پیالے میں پکڑ کر باہر لے جا کر چھوڑ دیں۔ کسی کو مارنے سے گریز جب ہمیں اس کی خواہش ہو تعمیری رویہ کہلاتا ہے۔ ہم اس سے اس لئیے گریز کرتے ہیں کیونکہ ہم علت و معلول کے قانون سے واقف ہیں۔ اس طرح کے تعمیری فعل سے ہمارے اندر طاقتور مثبت امکانات پیدا ہوتے ہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر تعمیری فعل کے درجات پاۓ جاتے ہیں، جس میں یہ شامل ہو گا کہ نہ صرف مچھر کو مارنے سے پرہیز کیا جاۓ بلکہ اسے خوراک مہیّا کی جاۓ۔ ہم اسے تھوڑا سا اپنا خون چکھا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اس کی کافی مقدار موجود ہے۔ میں ایسے چند لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے ایسا کیا ہے۔ محض یہ بات کہ ہم شکار نہیں کرتے یہ کوئی ایسا بڑا مثبت فعل نہیں ہے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں۔

بودھی اخلاقیات کی بنیاد رویہ سے منسلک علت و معلول کو سمجھنا ہے

پس، بدھ مت میں اخلاقیات کی بنیاد اس بات کی فہم پر موقوف ہے کہ بعض خاص قسم کے اعمال خاص قسم کے نتائج پیدا کرتے ہیں، اور اس بات کی تمیز پر کہ کیا فائدہ مند ہے اور کیا نقصان دہ۔ مثال کے طور پر اگر ہم نقصان دہ رویہ اختیار کریں تو اس سے ہمارے من کی حالت نا خوشگوار یا پریشان کن ہو گی۔ ہمارے ایسے رویہ کا سبب ہماری بنیادی الجھن ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم شائد اس امر سے واقف ہی نہیں کہ نقصان دہ اطوار ہمیں خود کو ہی نقصان پہنچاتے ہیں جیسے جب ہم کسی نشہ آور دوائی یا شراب کے عادی ہو جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہم ایک الٹے انداز میں یہ سوچ سکتے ہیں کہ اگر ہم ہر وقت مست یا مدہوش رہیں تو اس سے ہم مسائل سے بچ جائں گے۔

لہٰذا، اخلاقی رویہ کی بنیاد کی فہم و فراست سے لیس ہو کر، ہم یہ جان لیتے ہیں کہ جب ہم تباہ کن رویہ اختیار کرتے ہیں، تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم بد ہیں، بلکہ اس کی وجہ ہماری الجھن ہے۔ جب دوسرے لوگ تباہ کن اسلوب اپناتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ برے انسان ہیں اور سزا کے مستحق ہیں، بلکہ یہ کہ وہ بہت زیادہ غلط فہمی کا شکار ہیں اور پریشان ہیں۔ وہ ہماری درد مندی کے حقدار بن جاتے ہیں، جس صورت میں ہم انہیں ان کی الجھن سے نجات پانے میں مدد کرتے ہیں۔ بے شک، ہم انہیں جیل میں بند کرنا چاہیں گے اگر اس بات کا امکان ہو کہ وہ لوگوں کو نقصان پہنچاتے رہیں گے، لیکن اس کے پس پشت مختلف تحریک ہونی چاہئیے۔ ہم انہیں سزا یا تکلیف دینا نہیں چاہتے، بلکہ ایک طرح سے ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے من کا ایک چلار ہے جو ہمیشہ قائم رہے گا، اور اگر ہم اب ان کی اصلاح کی کوشش نہیں کریں گے، تو وہ مستقبل میں ایسے ہی نقصان دہ انداز سے چلتے رہیں گے۔

بہر حال، اس ابتدائی مرحلہ پر ہماری توجہ ہمارے اپنے اوپر مرکوز ہے اور ہم مستقبل میں بد ترین حالات سے بچنا چاہتے ہیں، جو کہ یا تو اس عرصۂ حیات میں دھرم- لائٹ کے مطابق ہے، یا حقیقی شے دھرم کے مطابق آنے والی زندگیوں سے نسبت رکھتی ہے۔ اس سطح پر، اس طرح سے ایک محفوظ سمت تلاش کر کے ہم اپنی بیش قیمت انسانی زندگی کو بروۓ کار لاتے ہیں۔ ہم اس زندگی کی قدر کرتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ عارضی ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ بیش قیمت انسانی زندگیوں کا یہ سلسلہ مستقبل میں قائم رہے۔ ہمیں ان انسانی زندگیوں کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں مکش اور روشن ضمیری پانے کے لئیے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔ جس طرح دھرم- لائٹ حقیقی شے دھرم کی جانب ایک قدم ہے، اسی طرح یہ ابتدائی مرحلہ جس کا ہم نے جائزہ لیا یہ بھی میانہ اور ترقی یافتہ درجات کی جانب ایک بڑھتا ہوا قدم ہے۔

خلاصہ

 ابتدائی ترغیب کی شروعات اس امر سے ہوتی ہے کہ ہم اپنی اس بیش قیمت انسانی زندگی کی قدر و قیمت کی پہچان کرتے ہیں۔ ہمارے پاس یہ جسم موجود ہے، ہمارے پاس مواقع موجود ہیں، اور سب سے بڑھ کر ہمارے پاس انسانی بصیرت موجود ہے؛ اور اگر ہم اپنا من اس میں لگا دیں تو کوئی شے نا ممکن نہیں ہے۔

ہماری یہ موجودہ لا جواب صورت حال دائمی نہیں ہے، کیونکہ کسی شے کو بھی دوام نہیں۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہم کتنے مالدار ہیں، کتنے نامی گرامی ہیں، یا ہمارے کتنے دوست احباب ہیں، یا ہمارا جسم کتنا مضبوط ہے، آخر کار ہم نے مرنا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اسے کسی طرح بھی روکا نہیں جا سکتا، بلکہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ موت کب آۓ گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہمیں موت کا سچ مچ احساس ہو، تو پھر ایک معمولی زندگی گزارنا نا ممکن ہو گا۔

جب ہمیں اس زندگی کی کمزوری اور نا پائداری  کا احساس ہو تو پھر ہم بعد از موت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں گے۔ چونکہ اس کی بے شمار ممکنہ صورتیں ہیں جن میں سے کئی ایک بہت خوفناک ہیں جن میں ہمارا پنر جنم ہو سکتا ہے، تو ہم اپنی زندگی کو محفوظ راہ پر ڈالتے ہیں۔

یہ محفوظ سمت ہمیں نقصان دہ اعمال سے باز رکھتی ہے، جو کہ مستقبل کے آزار کا باعث ہوتے ہیں، اور ہمیں تعمیری اعمال میں مشغول رکھتی ہے، جو مستقبل میں مسرت کا باعث ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنے مستقبل میں ہونے والے پنر جنموں کی احسن حالت کا تیقن کر لیتے ہیں۔

Top