مذہبی تنوّع کے بیچ ہم آہنگی کے قیام کی جستجو

مذاہب کو بدلنے کے خطرات

دنیا میں بہت سے مذاہب اور ثقافتیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کو ایسی شکل دی گئی ہے جو عام لوگوں کو راس آسکے۔ اسی وجہ سے میں ہمیشہ یہ سفارش کرتا ہوں کہ آپ کے لیے اسی مذہب پر قائم رہنا سب سے اچھا ہوگا جس میں آپ نے جنم لیا ہو۔ مغرب میں بیشتر لوگ عیسائی ہیں، اگرچہ ان میں کچھہ یہودی اور کچھہ مسلمان بھی ہیں۔ ان کے لیے، بلکہ ان میں سے کسی کے لیے بھی، اپنا مذہب بدل لینا آسان نہیں ہے اور بعض اوقات تو یہ عمل صرف الجھنیں پیدا کرتا ہے۔

ایک مثال ایسی ہے جس کا تذکرہ میں ہمیشہ کرتا ہوں۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہم تبتی لوگ زبردست مشکلات سے دوچار ہوئے۔ اس وقت بہت سی عیسائی تنظیمیں ہماری مدد کے لیے آگے آئیں۔ ایک تبتی خاتون تھیں جن کے متعدد چھوٹے بچے تھے اور انہیں ایک انتہائی مشکل صورت حال کا سامنا تھا۔ پھر ایک عیسائی مشنری آئے اور انہوں نے اس خاتون کے بچوں کو ایک عیسائی مشنری اسکول میں لے جانا چاہا۔ ایک روز وہ خاتون میرے پاس آئیں اور مجھہ کو بتایا کہ اپنے اس جنم میں وہ عیسائی ہونے جا رہی ہیں، مگر اگلے جنم میں وہ بدّھ مت کی پیروکار ہوں گی، اس (واقعے) سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مذہب کی بابت ان کے ذہن میں کچھہ الجھاوے تھے۔ اگر وہ اپنی اگلی زندگی میں جنت میں جاتی ہے تواُسے بدھ مت کا پیرو بننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی اور اگر وہ جہنم میں جاتی ہے تو اس کے لیے بدھ مت کا پیرو بننا ممکن نہیں ہو گا۔

اسی طرح پولش خاتون کا قصہ ہے۔ انہیں میں ۱۹۵۶ء سے جانتا تھا۔ ۱۹۵۹ء سے لے کر اس وقت تک، تعلیم میں وہ گہری دل چسپی لیتی تھیں اور متعدد تبتی طلبا کو وظائف دیتی تھیں۔ وہ بدھ مت کی طرف مائل ہوئیں، مگر اس سے پہلے وہ مدراس میں ایک پیرو کے حکمت یزدانی بھی رہ چکی تھیں۔ چنانچہ پہلے سے ہی وہ ایک غیر فرقہ وارانہ نقطۂ نظر رکھتی تھیں، تاہم انہوں نے اپنے ذاتی مذہب کے طور پر بدھ مت کو اختیار کیا۔ اپنی زندگی کے اختتامی دور میں، خدا کا تصور ان کے ذہن سے قریب تر تھا اور اس سے بھی ایک طرح کی الجھن ظاہر ہوتی ہے۔ اسی لیے سب سے بہتر یہی ہے کہ اپنے مذہب پر قائم رہا جائے۔

بہر حال، لکھوکھا افراد کے درمیان، کچھہ لوگ خلقی طور پر مشرقی مذاہب، بالخصوص بدھ مت سے شغف رکھنے والے ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو احتیاط کے ساتھہ سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے بدھ مت کو زیادہ مناسب خیال کرتے ہیں، تو ٹھیک ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں، مثلاً ہم تبتوں میں ننانوے فی صد لوگ بودھ ہیں۔ لیکن گزشتہ چار صدیوں میں تبت کے کچھہ لددّاخی مسلمان ہیں جنہوں نے تبتوں سے شادی کر لی اور ان کے بچے مسلمان ہو گئے۔ اسی طرت ایمڈو علاقے میں کچھہ لوگ عیسائی ہیں۔ لہذا دونوں کے معاملے میں یہ بالکل درست اور بجا ہے، اس میں کچھہ بھی حرج نہیں۔

یہیں مجھے یہ بھی عرض کرنا چاہیے کہ جب کوئی شخص نیا مذہب اختیار کرتا ہے، تو اسے اپنی سابقہ روایت کےمطابق کسی طرح کا منفی رویّہ اپنانے سے بچنا چاہیے چونکہ انسانی خصلت میں اس طرح کی بات اکثر رونما ہوتی ہے۔ بالفرض آپ اپنی پرانی روایت کو اپنے لیے زیادہ مفید نہ پاتے ہوں، تو اس کا مطلب یہ نہيں کہ وہ روایت اب کار آمد نہيں رہ گئی ہے۔ تمام مذاہب انسانیت کو مدد بہم پہنچاتے ہیں، خاص طور پر مشکل حالات کا سامنا کرتے وقت تمام مذاہب ہمیں امید سے ہم کنار کرتے ہيں۔ چنانچہ، ہمیں تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہیئے۔

ایک دوسرے کے مذہب سے سیکھنے کا عمل

پھر یہ بات بھی ہے کہ آج کی سچائی گزشتہ ادوار کی سچائی سے کسی قدر مختلف ہے۔ ماضی میں مختلف روایتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کم و بیش الگ تھلگ رہتے تھے۔ بودھوں کا قیام ایشیا میں تھا، مسلمان مشرق وسطٰی میں تھے، کچھہ ایشیا میں اور مغرب میں زیادہ تر عیسائی آباد تھے، ان میں بہت کم ربط و ضبط تھا، لیکن اب زمانہ کچھہ اور ہے۔ نقل مکانی کی بہت سی نئی لہریں اٹھی ہیں، اب اقتصادی عالم کاری کا دور ہے اور اسی کے ساتھہ ساتھہ ایک سیاحت کی انڈسٹری (صنعت) بھی پھیل رہی ہے۔ اب اتنی زیادہ اطلاعات ہمیں میسر ہیں، ان میں بدھ مت کے بارے میں اطلاعات بھی شامل ہیں۔ ایسے متعدد عوامل کی بنا پر ہمارا عالمی معاشرہ ایک وحدت بن چکا ہے، ایک کثیرالثقافتی اور کثیر المذہبی واحد اکائی۔

لہذا یہاں ایسے دو امکانات ہیں جو عمل میں آسکتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ مختلف روایات کے مابین قریبی رابطے کی وجہ سے، بعض اوقات خود ہماری اپنی روایت کی بابت قدرے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ دوسری روایت سے ہمارا رابطہ چونکہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے ہم کسی قدر بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک منفی امکان ہے۔ دوسرا امکان اس بات کا ہے کہ زيادہ گفت و شنید کی اس حقیقت کے باعث روایتوں کے درمیان حقیقی ہم آہنگی پیدا کرنے کے مواقع بڑھے ہیں۔ یہ ایک زیادہ مثبت امکان ہے، لہذا اب ہمیں سچی ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم ان مذاہب سےہٹ کر دیکھیں جو کسی طرح کی فلسفیانہ بنیاد نہیں رکھتے بلکہ صرف سورج یا چاند یا ایسی ہی چیزوں کی پوجا کے لحاظ سے محض عقیدے رکھتے ہیں، اگر ہم انہیں الگ چھوڑ کر دنیا کے بڑے مذاہب مثلاً عیسائیت، یہودیت، اسلام، مختلف ہندو اور بودھ روایات، جین مت، تا‏ؤ مت کنفیوشیس کے عقیدے وغیرہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں- اسی لیے، قریبی رابطے کی وساطت سے، ہم ایک دوسرے سے نئی باتیں سیکھہ سکتے ہیں اور خود اپنی روایات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

مثال کے طود پر ہم لوگ جو تبتی بودھ ہیں، ہمالیہ پربت کے پیچھے الگ تھلگ پڑے ہوئے تھے اور ہمیں باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اس کا کچھہ بھی پتہ نہیں تھا۔ لیکن اب صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ اب لگ بھگ پچاس برسوں کی بے وطنی اور پناہ گزی کے بعد ہم نے دوسرے ملکوں میں نئے گھر پا لیے ہیں اور ایک دوسرے کی روایات سے سیکھنے کے بہت سے مواقع حاصل کر لیے ہیں۔ یہ بات انتہائی سود مند ثابت ہوئی ہے۔ ماضی میں ہم نے یہاں ہندوستان میں باہمی مبادلے کے پروگرام مرتب کیے تھے، عیسائی بھائی اور بہنیں ہندوستان آئے تاکہ ہم سے کچھہ سیکھہ سکیں اور ہمارے تبتی راہب اور راہبائیں مغرب کی سمت گئے اور بیشتر کیتھولک خانقاہوں میں عیسائیت کا تجربہ حاصل کیا ۔ بس اس طرح کے قریبی روابط کے ساتھہ، اگر ہم اپنے ذہن کو محدود نہیں رکھتے اور انہیں کھول دیتے ہیں تو ہم ایک دوسرے سے کچھہ سیکھہ سکتے ہیں۔ اس طور پر ہم باہمی مفاہمت اور احترام کو فروغ دے سکتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح ایک نئی سچائی سے روشناس ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ، میں سمجھتا ہوں کہ مختلف مذاہب کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینا بہت اہم بات ہے۔ مذہبی ہم آہنگی کو ترقی دینا، ‏زندگی کی آخری سانس تک میرے (تعہّد) ایمان کا حصہ بنا رہے گا۔ اس سے انتہائی مدد ملے گی۔

تو جب میںمغربی لوگوں کے لیے بدھ مت پر تقریر کرتا ہوں تووہاں اکثر دوسرے مذاہب کےلوگ ہوتے ہيں۔ تاہم میرا مقصد ان لوگوں کو بدھ مت کے بارے میں سمجھانا ہوتا ہے۔ یہ برداشت کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ آج کے پاپائے روم بھی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ دونوں یقین اور عقل یر زور دینا چاہیئے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ عقل کے بغیر کبھی کبھی یقین بے معنی ہوجاتا ہے اور عقل کے ساتھ ایمان زندگی کا ایک با معنی حصہ بن جاتا ہے۔ مثلاً جب کوئ مشکل وقت سےگزر رہا ہو تو خدا پر یقین بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر ہم غصہ، نفرت، حسد، دھوکے بازی اور دھونس جمانے کے جذبات کے لحاظ سےسوچيں تو ایمان ہمیں اس طرح کے منفی جذبات سےبچا ہوسکتا ہے۔ ہم جب یہ جان لیتے ہيں تو پھر ایمان ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن جاتا ہے۔ بدھ مت کی روایات میں ہم ایمان اور عقل یر یکساں زور دیتے ہيں۔ اس طرح کچھ بودھی تشریحات، خاص طور پر وہ جو عقل اور دلائل یرمبنی ہيں، دوسری روایتوں کے پیرو کاروں کے کام آ سکتی ہيں۔

سائنس سے کچھہ سیکھتے ہوئے اپنے علم میں کچھہ اضافہ کرنے کا عمل

آج کی دنیا میں پائی جانے والی مذہبی روایات کی قسموں کو دو زمروں میں رکھا جا سکتا ہے: ایک تو وہ جو توحید پرستانہ ہیں، دوسری وہ جو غیر توحیدی ہیں۔ بدھ مت غیر مواحدانہ زمرے میں شامل ہے۔ غیر موحدانہ مذاہب کے مطابق زور در اصل علت کے قانون پر ہے۔ لہذا قدرتی طور پر بدھ مت میں علت یا سبب کے قانون کی وضاحت پر بہت زور دیا گيا ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جسے سمجھنا بہت کار آمد ہوگا۔ اس کی افادیت یہ ہے کہ یہ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنے ذہن کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

مثال کے طور پر، ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ تخریبی جذبے اور رویّے ہی ہمارے دکھہ اور درد کا سبب ہوتے ہیں۔ دکھہ اور درد سے نجات کے لیے صرف ان کی طبیعی اور زبانی سطح پر دھیان دینا کافی نہيں ، ان کے ذہنی پہلو کو نظرمیں رکھنا بھی ہمارے لیے ضروری ہے۔

بودھی روایت میں، ذہن کی تشریح بہت مفصل طریقے سے کی گئی ہے۔ بعض قدیم ہندوستانی روایتوں میں بھی ہمیں یہی دکھائی دیتا ہے، لہذا اس وقت، آج، جدید سائنس اس علاقے کی تحقیق کے عمل میں زیادہ سے زیادہ گہرائی تک پہنچنا چاہتی ہے۔ مثلاً طبی سائنس نے جذبات پر تحقیق کی شروعات کر دی ہے کیونکہ ہماری صحت کے تعلق سے ان (جذبات) کی اہمیت بہت زيادہ ہے۔ صحت مند جسم کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے۔ اسی لیے دماغی امراض کی تحقیق میں مصروف عصبیات دان کے لیے یہ بات خاص طور پر اہمیت رکھتی ہے کہ ہمارا ذہن کس طرح ہمارے جذبوں کا جائزہ لیتا ہے۔ دوسرے تدریسی میدانوں میں بھی، ذہن اور جذبات کے مطالعے سے شغف بڑھا ہے۔ چنانچہ ان عالموں کی تحقیق میں بدھ مت اور قدیم ہندوستانی مذاہب سے محصولہ اطلاعات بہت کار آمد ہیں۔

عام طور پر میں بدھ مت کو تین حصوں میں الگ الگ کر کے دیکھتا ہوں۔ : بودھ سائنس، بودھ فلسفہ اور بودھ مذہب۔ خود بودھ کی مثال پر نظر ڈالیے۔ اصلاً وہ ایک معمولی حسّی وجود رکھتے تھے، ایک محدود ہستی۔ انہوں نے ہمیں قدم بہ قدم اپنے عام جذبوں اور ذہنی سرگرمیوں کو ارتفاع کی راہ دکھائی اور اسی راہ پر چلتے ہوئے بالآخر انہوں نے گیان حاصل کیا اور روشن ضمیر کہلائے اور اسی بات نے انہیں بدّھ بنایا۔ اسی لیے بودھ رویّہ یہی ہے کہ اپنا سفر عام انسانوں کی سطح سے شروع کیا جائے اور پھر تمام منزلوں کو عبور کرتے ہوئے بدّھ کے مقام تک پہنچا جائے۔

لھٰذا، اسی لیے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ آج کی سچائی کیا ہے۔ ایسی سچائی جو بودھی سائنس کا احاطہ کر سکے۔ پھر اسی سطح پر ہم تبدیلی کے امکان سے دوچار ہوتے ہيں، تقلیب و تحوّل کے امکان سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تبدیلی ممکن ہے اور یہی بودھی فلسفہ ہے۔ جب ہم پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے اور ہم باطنی تقلیب کے عمل میں یقین کرنے لگتے ہيں تبھی ہم بدھ مت پر عمل پیرا ہونے کی شروعات کرتے ہيں۔

سو، ہم اگر پیچھے مڑ کر بودھی سائنس پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ اس کی ساری سرگرمیوں کا تعلق دو سطحوں سے ہے، اندرونی یا باطنی سطح پر ذہن سے اور بیرونی سطح پر مادّے یا ایٹم یعنی کہ (طبیعی) کائنات سے۔ مغربی سائنس کے پاس بیرونی سطح پر دینے کے لیے بہت کچھہ ہے۔ ہر میدان میں وہ خاصی آگے جا چکی ہے۔ ہم بودھ لوگ اس سے زراعت، جنسیات، اور کائنات کے بارے میں بہت کچھہ سیکھہ سکتے ہیں۔ بہ طور بودھ کے یہ ہمارے لیے بہت کار آمد ہے۔ کم از کم اس سیّارے کی سطح پر، یہ بات بالکل صاف ہے کہ یہاں کوئی میرو پربت نہيں ہے۔ تو پھر ہمارے کچھہ کلاسیکی بیانات کو بھی بدلنا پڑے گا، اسی لیےکونیات (کاسمولوجی)، جوہری طبیعیات (قدری کوانٹم) ، طبیعیات وغیرہ ہم بودھوں کے سیکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔

بہر حال، جدید سائنس اور بدھ مت کی کچھہ دریافتیں یکساں ہیں۔ مثلاً شروع شروع میں لوگ یہ سمجھتے تھے کہ معروضات (اشیاء و اجسام) کے زمرے میں کسی طرح کا خود کفیل اور آزادانہ حیثیت رکھنے والا مادّہ بھی شامل ہے۔ لیکن اب قدری طبیعیات کی دریافتوں کے مطابق ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ایسا کچھہ بھی نہيں ہے۔ ہم بودھوں کو اس رمز کی خبر ہزاروں برس سے تھی۔ بدھ مت ہمیں بتاتا ہے کہ کسی بھی شۓ کی نمود خود کفالت کی سطح پر نہيں ہوتی، نہ ہی کوئی شۓ خود کفیل ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہر شۓ کا انحصار کسی اور شۓ پر ہے اور اسی سے اس کی نمود ہوتی ہے۔

اب، باطنی علم کی اصطلاح میں، جدید سائنس نے بھی کچھہ چھان بین کی شروعات کی ہے، چنانچہ اسی سے دونوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ بودھ لوگ بیرونی مظہر کے بارے میں سائنس کے واسطے سے کچھہ سیکھہ سکتے ہيں اور سائنس بودھوں سے یہ سیکھہ سکتی ہے کہ منفی جذبات اور اس قسم کے اندرونی مظہر سے کیونکر نپٹا جائے۔ لہذا جب ہم سائنس دانوں سے مکالمہ قائم کرتے ہیں تو وہ آنے والی زندگیوں یا نروان کے بارے میں نہيں ہوتا، ہم مذہبی پہلوؤں پر گفتگو نہيں کرتے بلکہ ذہن اور جذبات کے بارے میں گفتگو کرتے ہيں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہمارے پاس ایک ہی طریقہ ہے۔ (تفہیم اور تخاطب کا)۔ ہم چیزوں کی چھان بین اس لیے کرتے ہيں کہ حقیقت کو جان سکیں۔

پس، آپ میں سے ایسے مغربی اصحاب کے لیے جو بدھ مت میں دلچسپی رکھتے ہيں، اپنی سائنسی تحقیق کو جاری رکھنا سود مند ہوگا، چنانچہ ایک سائنسی انداز کے ساتھہ بودھ تعلیمات کی چھان بین کا موقعہ فراہم کرنے کی اس بنیاد پر یہ بات مجھے درست معلوم ہوتی ہے کہ غیر بودھی سامعین کے سامنے بدھ مت پر تقریریں کی جائيں۔ اسی وجہ سے، براہ کرم میری گفتگو کو آپ کسی قدر تدریسی تقریر کے طور پر دیکھیں۔ سوائے اس تھوڑی سے منتر خوانی (دعا) کے جس سے شروعات کی گئی، یہاں اور کوئی رسم پرستی نہ ہوگی، نہ میری گفتگو کا کوئی مذہبی پہلو ہوگا۔ میں تو بس سائنسی تقریریں کرتا ہوں۔ آپ کیا سوچتے ہیں اس کے بارے میں؟

Top