میانہ اور ترقی یافتہ لم-رم پاٹھ کے لئیے من کی تربیت

اپنی ترغیب کا اعادہ اور نظرِثانی

اپنے ارد گرد لوگوں پر نظر ڈالو، خواہ وہ قریبی ہوں یا دور کے، امیر یا غریب، خوشی کی امنگ اور دکھ سے نجات میں ہم سب یکساں ہیں۔ اس کے حصول کا بہترین ذریعہ دھرم پر عمل ہے۔ ہمیں پوری طرح فعال انسانی جسم سے نوازا گیا ہے، ہم نے اخلاقی ضبط نفس کی مکمل تعلیم حاصل کی ہے، مہایان اور تنتر، اور نہائت قابل گرؤں سے ملے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ایک بھرپور مہایان عزم قائم کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے پریشان کن جذبات اور رویوں کا خاتمہ کر دے، اور ہم اعلٰی صفات پیدا کر کے روشن ضمیر بن جائں۔

بنیادی بات ایک نرم اور گرم دل رکھنا ہے۔ یہ ہمارے لئے اور دوسروں کے لئے مسرت کا سرچشمہ ہے، عارضی طور پر بھی اور دائمی طور پر بھی۔ یہ بودھی چت عزم کی بنیاد ہے جو ہمیں روشن ضمیری بخشتا ہے، جس کے توسط سے ہم سب کو مسرت فراہم کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اس لئے، جس درجہ بھی ممکن ہو، ہمیں اپنے دل میں نرمی پیدا کرنی چاہئے۔

ایسے الفاظ مت کہو"کاش میں ایک درد بھرا دل تشکیل دے سکوں"۔ اس کے حصول کے لئے ہمیں مطلوبہ منازل بذریعہ مشق اور تربیت طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں (مطلوبہ) طریقوں سے واقفیت حاصل کر کے ان پر عمل کرنا چاہئے۔ دھرم کی بابت مکمل تعلیمات مہاتما بدھ کے 'کانگیور' الفاظ کی سو جلدوں میں موجود ہیں، اور ہندوستانی علما کے 'تنگیور' تبصروں کی دو سو جلدوں میں رقم ہیں۔ آتیشا وہ مرکزی لاما تھا جو من کی تربیت اور ہمارے رویوں کو مصفا کرنے کے لم-رم کے مکمل بتدریج مراحل (کی جانکاری) تبت لے کر آیا۔ اس کی 'روشنضمیریکاراستہپانےکےلیےایکچراغ' اس تحریر کی بنیاد ہے، 'سینتیس بودھی ستوا عبادات' ۔ چونکہ 'سینتیس' مختصر ہے اور زود فہم، ہمیں اسے یاد کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، اور پھر اس کے معانی پر غور کرتے ہوۓ اسے اکثر پڑھنا اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔

اب اس درس کا اگلا حصہ سنو۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے قیمتی جسم کی پہچان اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بابت سوچنا چاہئے۔ چونکہ ہماری موت یقینی ہے اور اس طرح ہم ان اجسام سے محروم ہو جائں گے، تو ہمیں زندگی کے ساتھ دیوانہ وارمحبت اور مستقبل کی زندگیوں سے محبت سے توجہ ہٹانی ہے۔

اس کے لئے سب سے اول ہمیں موت اور ناپائداری کی بابت سوچنا ہے، اور یہ کہ مرنے کے بعد ہم بدترین تین صورتوں میں سے کسی ایک میں دوبارہ جنم لے سکتے ہیں۔ اگرچہ ہم دکھ کی دنیا (دوزخ) کی مقیّد ہستیوں کو یا چمٹے ہوۓ بھوتوں (بھوکے بھوت) کو دیکھ تو نہیں سکتے، مگر ہم جانوروں اور ان کے آلام کے بارے میں جانکاری تو رکھتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان سے کیسے بدسلوکی، مار پیٹ اور زبردستی محنت مشقّت کروائی جاتی ہے، طب کے تجربات میں بیدردی سے استعمال کیا جاتا ہے، اور گوشت کی خاطر ان کی قربانی دی جاتی ہے۔ بدھ مت میں ہمیں ان سے رحمدلی کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ بعض دوسرے مذاہب میں جانوروں کو مارنا کسی درخت کو کاٹنے یا سبزی توڑنے سے مختلف نہیں۔ مگر بدھ مت میں ایسا نہیں۔ یہاں ہم جانوروں کی تکلیف کو سنجیدہ معاملہ گردانتے ہیں، اور سوچتے ہیں کہ یہ کوئی عجب بات نہیں کہ کل کو ہم بھی ان کی شکل میں دوبارہ جنم لے لیں۔

جو شخص ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ جانور کی شکل میں پنر جنم سے کیسے بچا جاۓ، وہ ایک مکمل روشن ضمیر مہاتما بدھ ہے۔ اس نے ہمیں رویہ کی بابت علت و معلول کی راہ دکھائی ، کہ کونسے اعمال کو چھوڑنا ہے اور کن اعمال کو پکڑنا ہے۔ ہمیں مہاتما بدھ کی بے عیب تعلیمات کو جس درجہ ممکن ہو سیکھنا ہے، کیونکہ ایک تو وہ عیب سے پاک ہیں اور دوسرے وہ زندگی میں پوری طرح محفوظ اور ٹھوس راہ پر راہنمائی کرتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کل کہا تھا کہ مہاتما بدھ، دھرم اور سنگھا محفوظ راہ کے تین جوہر ہیں۔ صرف یہ تینوں ہی زندگی میں ایک محفوظ اور مستحکم سمت کی ضمانت ہیں۔ اگرچہ دنیاوی دیوتاؤں سے بطور دوست مدد طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن ان کے اندر حتمی پناہ مانگنا نا مناسب ہے۔

تھائی لینڈ اور برما کی خانقاہوں میں راہبوں کو دیکھو؛ وہ سب عمدہ انسان ہیں۔ ان کے مندروں میں صرف شاکیہمُنی مہاتما بدھ کی شبیہیں ہیں، اور کسی کی نہیں۔ تبت کے مندروں میں ہم نے سکیامونی مہاتما بدھ کی تصویر لگا رکھی ہے، مگر اس کے علاوہ اور بھی کئی انوکھی محافظ ہستیوں کی تصویریں ہیں۔ جاپان میں صرف خاص اساتذہ کی تصویریں ہیں مگر شاکیہمُنی مہاتما بدھ کی قریب قریب کوئی بھی شبیہ نہیں۔ بیشک اس میں مہاتما بدھ کا گرؤں سے الگ نہ ہونا اور کئی شکلوں میں ظاہر ہونا سب شامل ہیں، لیکن یہ بات اور ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس بڑی ہستی کی طرف ہمیں الہامی ترغیب اور روشن ضمیری قوت کی خاطر رجوع کرنا ہے وہ شاکیہمُنی مہاتما بدھ ہے۔ بیشتر اوقات لوگ ہم تبتیوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم مہاتما بدھ کو بھُلا کر محافظوں کی تصویروں کے آگے ڈھول بجاتے ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہے۔ لہٰذا احتیاط برتو۔ اس پر اتنا ہی کافی ہے۔

سنگھا جوہر کی بابت جو طریقہ تھائی لینڈ اور برما میں رائج ہے وہ بھی عمدہ ہے۔ راہبوں کو بہت عزت و تکریم ملتی ہے اور گھروں کے مالک ان کی کفالت کرتے ہیں اور انہیں خیرات دیتے ہیں۔ یہ بڑی عمدہ بات ہے۔ بیشتر اوقات لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ محفوظ راہ کے صرف دو ہی جوہر ہیں: مہاتما بدھ اور دھرم، اور یہ کہ سنگھا غیر ضروری ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہم انہیں نظرانداز کر سکتے ہیں۔ ہم سب کو راہب یا راہبہ بننے کی ضرورت نہیں، مگر ہمیں اپنے مزاج کا جائزہ لینا چاہئے اور اگر یہ ہمارے مزاج پر جچے، تو راہبیت عمدہ بات ہے۔ لیکن بہرحال کبھی بھی راہبوں اور راہبات کو ہدفِ تنقید مت بناؤ۔ ہمیں صرف اپنی ذات کا جائزہ لینا اور اسے تنقید کا نشانہ بنانا چاہئے۔ مشعلِ راہ بننے اور مہاتما بدھ کی تعلیمات کا نمونہ پیش کرنے کے لئے سنگھا بہت اہم ہیں۔ ہمیں اپنے کرم اور اپنی گفتار و اعمال کے بارے میں نہائت محتاط رہنا چاہئے۔

تخریبی روش سے پرہیز

(۸) ایک بودھی ستوا مشق منفی اعمال سے دائمی گریز ہے، خواہ اس کی خاطر جان بھی دینی پڑے، کیونکہ قابل حکیم نے یہ کہا ہے کہ پنر جنم کی ناقابلِ برداشت حد سے متجاوز ابتلا منفی اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔

سادہ لفظوں میں، اگر ہم اچھا کریں تو اچھائی ملتی ہے، اور اگر ہم برا کریں تو برائی ملتی ہے۔ یہ بڑی سادہ سی بات ہے۔ نتیجہ اسی حالت میں جس میں سبب تھا، نکلتا ہے۔ یہ پکّی بات ہے، اور مزید یہ کہ، معمولی اسباب بہت بڑے اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔

ملکوں میں بھی بدترین حالات ماضی میں سرزد منفی اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ مثلاً تبت میں کبھی قحط سالی کی کیفیت ہوتی ہے؛ ہماری فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں؛ بعض اوقات جنگ و جدل وغیرہ ہوتا ہے۔ یہ سب ہمارے ماضی کے منفی اعمال اور مثبت توانائی کی کمی کے باعث ہے۔ اگر ہم نے ماضی میں اپنے اعمال سے کوئی مثبت توانائی پیدا نہیں کی تو ہم کچھ ہی کریں، اس سے خوشگوار حالات پیدا نہیں ہوں گے۔ اس لئے ہمیں ہمیشہ دوسروں کی خوشی کی تمنا کرنی چاہئے۔ مثلاً ہم چینیوں کے لئے خیر کی خواہش کرتے ہیں۔ ہمیں ان کے لئے بری شے کی دعا نہیں کرنی چاہئے۔ ان کے ساتھ جو ہو گا وہ ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہو گا۔

تخریبی رویہ پریشان کن جذبات اور رویوں کا نتیجہ ہوتا ہے، اور اس طرح کرنے سے، ہم منفی طاقت پیدا کرتے ہیں، جو ہمیں صرف دکھ اور آزار دیتی ہے۔ تخریبی اعمال بدن، گفتار یا من کے ہو سکتے ہیں۔ جسم کے ایک ایسے فعل کی مثال کسی کی جان لینا ہے، خواہ وہ کوئی انسان ہو یا کیڑا مکوڑا۔ کسی کی جان لینا نہائت منفی فعل ہے، اس لئے ہمیں اس سے ہر صورت گریز لازم ہے۔

تمام ہستیاں زندگی پر برابر کا حق رکھتی ہیں اور اسے اتنا ہی عزیز جانتی ہیں جتنا کہ ہم۔ اگر ہماری انگلی میں کانٹا چبھ جاۓ تو ہم کہتے ہیں، "اوہ، مجھے زخم آ گیا۔" سب ایک جیسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ خاص طور پر جانوروں کی قربانی بڑا ظالمانہ فعل ہے؛ بعض جگہوں میں لوگ آج بھی یہ کام کرتے ہیں۔ ماضی میں لوگ کنّور، سپیتی، نیپال کے بعض علاقے، حتیٰ کہ تبت کے بعض علاقوں میں بھی یہ کام کرتے تھے۔

اوپر اوپر سے لوگ مجھ میں یعنی دلائی لاما میں پناہ لیتے ہیں، اور پھر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے۔ ایک طرف تو درد مندی کا منتر "اوم منی پدمے ہُوم" جپنا اور پھر قربانی دینا، یہ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔

اگلی بات چوری کے متعلق ہے۔ یہ بھی بڑا منفی فعل ہے۔ جنسی بے راہروی سے مراد کسی کی بیوی یا خاوند سے ناجائز تعلقات قائم کرنا، یا کسی ایسے شخص سے ناجائز تعلق جس کا پہلے سے کسی سے تعلق ہو، اور اس میں قباحت محسوس نہ کرنا۔ تاریخ کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ شاہی خاندانوں میں بیشتر جھگڑوں کی وجہ جنسی بے راہروی تھی۔ یہ بڑی نقصان دہ چیز ہے۔

اگلی بات جھوٹ کے متعلق ہے۔ یہ بھی نہائت برا فعل ہے۔ البتہ کسی کی جان بچانے کی خاطر جھوٹ بولنا اور بات ہے، لیکن ہمیں ہمیشہ ایمانداری سے کام لینا چاہئے۔ اگر ہم جھوٹ بولیں گے تو اس سے عدم مسرت پیدا ہو گی۔ ہمارے اوپر ہر دم یہ خوف طاری رہتا ہے کہ ہمارا بھانڈا پھوٹ جاۓ گا۔ اس سے من کا سکون برباد ہوتا ہے، ہے نا؟

اگلی بات پھوٹ ڈالنے والی زبان کا استعمال ہے، جس سے لوگوں میں نفاق پڑتا ہے۔ ہم کسی کے بارے میں کوئی بری بات سنتے ہیں اور پھر اس کا چرچا کرتے ہیں؛ یہ بڑی نقصان دہ چیز ہے۔ ہمیں لوگوں میں قربت پیدا کرنی چاہئے۔ جب لوگ مل جل کر رہتے اور کام کرتے ہیں تو ان میں باہمی اعتماد کی بنا پر ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم چینیوں کو دیکھیں، تو وہ سب کو ساتھی کہہ کر پکارتے ہیں، مگر یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں۔ عملاً وہ کسی سے صابن کی ٹکیہ بھی بانٹنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عدم اعتماد کا شکار ہیں؛ وہ ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے۔ یہ (رویّہ) دوسروں میں پھوٹ ڈالنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے کبھی بھی شر انگیز زبان مت استعمال کرو۔

اگلی بات بدکلامی کے متعلق ہے، لوگوں کو برے نام مثلاً "فقیر" وغیرہ کہہ کر پکارنا۔ اس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے؛ اس سے یقیناً کوئی خوشی پیدا نہیں ہوتی۔ گپ بازی فضول گوئی ہے، ہر وقت بیکار باتیں کرنا؛ یہ وقت کا مکمل ضیاع ہے۔

اگلی بات حریصانہ سوچ ہے۔ کسی کے پاس کوئی عمدہ شے ہے جو کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں مل جاۓ، اور ہم اپنا تمام وقت اور ساری توجہ اس چیز کو پانے کی خواہش پر مرتکز کر دیتے ہیں۔ اگر ہم احتیاط سے کام نہ لیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم کسی دیوار سے جا ٹکرائں!

اگلی بات کینہ پروری ہے۔ یہ بھی بڑی بری بات ہے۔ یہ ہمیں مسرت سے عاری کر دیتی ہے۔ اس سے عموماً دوسرے شخص کو کوئی نقصان نہیں ہوتا؛ یہ محض ہمیں ہی نقصان پہنچاتی ہے۔ دوسروں سے بغض رکھنا اور ان کا برا چاہنا بیحد خود فناپذیر ہے۔ ہم کسی کے خلاف نفرت دل میں رکھ کر مسائل حل نہیں کر سکتے۔ مسائل ہمیشہ درد مندی، محبت اور صبر سے حل ہوتے ہیں؛ لہٰذا کبھی بھی کسی کا برا مت سوچو۔ آخری بات تحریف شدہ معاندانہ سوچ ہے: حقیقت سے انکار، یا کوئی من گھڑت بات جس کا کوئی وجود نہ ہو یا جھوٹی بات بنا لینا۔

یہ دس، کسی کی جان لینے سے تحریف شدہ معاندانہ سوچ تک، یہ دس تخریبی اعمال ہیں۔ ہمیں ان کے نقصانات کو پہچاننا اور ان سے گریز کرنا چاہئے۔ اصل مشق یہ ہے کہ ان کے مضر اثرات کو جاننا، اور شعوری کوشش اور پرمسرت استقلال کے ساتھ جان لینے، جھوٹ بولنے، وغیرہ سے پرہیز کرنا۔ اگر پوری طرح ان سے گریز نہ بھی کر سکیں تو بھی ہمیں ان کا کم سے کم مرتکب ہونا چاہئے۔ یہ محفوظ راہ پر چلنے سے پیدا ہوتا ہے۔

اب ہم ان تعلیمات کی طرف آتے ہیں جو ایک متوسط درجہ کی ترغیب پر کار آمد ہوتی ہیں۔

مکش کی جہد

(۹) بودھی ستوا مشق یہ ہے کہ مکش کی عظیم، استقلالی کیفیت میں بے پناہ دلچسپی لینا، جس طرح کے اضطراری وجود کے تین مراحل کی لذت ایسے مظاہر ہیں جو ایک پل میں مِٹ جاتے ہیں، جیسے کہ گھاس پر سے شبنم۔

اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہم اضطراری وجود کے تین جہانوں میں کسی بھی جہان میں پیدا ہوۓ ہوں، یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی زیرآتش عمارت کی کسی بھی منزل پر ہونا۔ ہر طرف دکھ ہی دکھ ہے، اس لئے ہمیں ہر حال اس سے مکش حاصل کرنا ہے۔ سمسار، اضطراری مکرّر وجود، سے مراد مجموعی دکھ درد ہے جس میں الجھن شامل ہے جو کہ ہمیں اپنے کرم اور پریشان کن جذبات اور رویوں سے ملتا ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے۔ اگرچہ ہمیں قیمتی پنر جنم ودیعت ہوا ہے، لیکن اگر ہم کرم اور پریشان کن جذبات کے زیر اثر ہیں اور ہمیں کوئی اختیار نہیں، تو ہم محض مزید دکھ پیدا کریں گے۔ لہٰذا ہمیں اپنے آپ کو ان مکرّر علاماتِ علّت سے آزاد کرانا ہے۔ ہماری دنیاوی خوشیاں دوامی نہیں ہیں۔ وہ محض وقتی اور عارضی ہیں۔ ہم کسی وقت بھی بد ترین پنر جنم کا شکار ہو سکتے ہیں۔

اگر ہمارے دکھ کا منبع ہماری مجموعی جسمانی اور من کی صلاحیتیں ہیں جو کہ پریشان کن جذبات اور کرم کے زیر اختیار ہیں، تو پھر ہم اپنے مجموعی اثرات جو کہ الجھن کا شکار ہیں، سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں؟ اس پر غور کرو۔ اگر ہمارے اپنے مجموعی اثرات بذاتِ خود دکھ درد کا شکار ہیں تو ہم ان سے کیسے فرار حاصل کریں؟

ہمارے دکھ کی وجہ ہمارے پریشان کن جذبات اور رویے ہیں، جن میں سے دو بڑے والے تعلق اور نفرت ہیں۔ یہ دونوں عدم آگہی (لاعلمی) سے پیدا ہوتے ہیں، فطری وجود کے اصرار پر لاعلمی، مگر یہ ایک تحریف شدہ تصور ہے۔ اور دوسری جانب، اس کے متناقض (تصور) کو استوار کر کے، یعنی اس کا مقاومتی نظریہ، کہ فطری وجود کا در حقیقت کوئی وجود نہیں، اور اگر ہم اس کے عادی ہو جائں، تو ہم جس قدر زیادہ صحیح نظریہ کو سمجھیں گے اتنی ہی ہماری لاعلمی کم ہو گی۔

من پر لاعلمی کے دھبے عارضی ہوتے ہیں؛ انہیں مٹایا جا سکتا ہے۔ فطری وجود پر اصرار کی لاعلمی اور فطری وجود کی عدم موجودگی کی فطانت، دونوں کا رخ ایک ہی شے کی جانب ہوتا ہے۔ لہٰذا، ایک کے ہوتے ہوۓ دوسرے کا ہونا محال ہے۔ تو یہ وہ صورت حال ہے جس کے تحت امتیازی آگہی یا خالی پن کی حکمت عدم آگہی کے نقیض کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اس امتیازی آگہی کی مدد سے ہم تعلق اور نفرت سے نجات حاصل کرتے ہیں اور دکھ سے مکش پاتے ہیں۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تعلق اور نفرت یا عناد فطری عناصر ہیں؛ یہ من کا فطری جزو ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی عدم موجودگی انسان کی موت کے مترادف ہے۔ لیکن اگر یہ من کا فطری حصہ ہوتے، تو جیسا کہ جب ہم آگہی اور تیقن کو من کی فطرت مانتے ہیں، اسی طرح ان تعلق اور دشمنی کے جذبات کو بھی ہمہ وقت موجود ہونا چاہئے۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ غصہ کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے، یہ ہمیشہ نہیں رہتا۔ پس یہ ایک غلط تصور ہے کہ یہ زندگی کا فطری حصہ ہیں، اور یہ کہ تعلق اور نفرت من کا فطری جزو ہیں۔

تو ہمیں دو سچائیوں کو پہچاننے کے لئے امتیازی آگہی کی ضرورت ہے؛ غائرانہ تصور کے مطابق ہر شے فطری وجود سے عاری ہے، پھر بھی روائت کے لحاظ سے، دست نگر نمو کبھی دھوکہ نہیں دیتی۔ اعلیٰ امتیازی آگہی کے لئے یہ تربیت دی جاتی ہے، اور اس کے حصول کی خاطر، ہمیں اعلیٰ ارتکاز کی، بطور اس کی بنیاد کے، تربیت درکار ہے، تا کہ ہم من کی آوارگی سے بچ سکیں۔ اس کے لئے ہمیں اعلیٰ اخلاقی ضبط نفس کی تربیت بطور ایک راہب یا ایک دنیادار کے درکار ہے۔ مثال کے طور پر ایک دنیادار کے لئے پانچ قسمیں، وعدے ہیں جن کا اسے کم از کم پاس کرنا چاہئے۔ پس ہمیں تین اعلیٰ تربیتوں کی مشق کرنی چاہئے۔

اگلی بات وہ تعلیمات ہیں جن کا تعلق ہماری ترقی یافتہ ترغیب کے مرحلہ سے ہے۔

ایک بودھی چت ہدف استوار کرنا

(۱۰) بودھی ستوا مشق یہ ہے کہ ان گنت ہستیوں کو مکش دلانے کا بودھی چت ہدف اپنانا، کیونکہ اگر ہماری مائں، جو ازل سے ہی ہم پر مہربان تھیں وہ اگر دکھ میں مبتلا ہیں، تو پھر (محض) ہماری خوشی کس کام کی؟

تمام محدود ہستیاں، جو ہر جگہ موجود ہیں، ہماری طرح ہی مسرت کی خواہاں، اور درد سے گریزاں ہیں۔ وہ تعداد میں اس قدر زیادہ ہیں، کہ اگر ہم انہیں نظر انداز کریں اور صرف اپنے بارے میں ہی سوچیں، تو یہ بہت بری بات ہو گی، بلکہ ناانصافی بھی۔ ہمیں اپنے آپ کو ایک جانب اور باقی تمام ہستیوں کو دوسری جانب رکھنا ہے۔ ہم سب سکھ مانگتے ہیں، دکھ نہیں (مانگتے)؛ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم ایک ہیں اور وہ بیشمار۔ تو ایسا کون ہے جو ایک شخص کو باقی سب پر ترجیح دے گا؟

بودھی ستوا محض دوسروں کی خوشی کی خاطر سوچتے اور کام کرتے ہیں۔ اور اس بات کا ذکر بے معنی ہے کہ انہیں یقیناً روشن ضمیری ملتی ہے، اس کے علاوہ، جب وہ اس کام میں مشغول ہوتے ہیں تو ان کے ہاتھ سے مسرت کا دامن نہیں چھوٹتا۔ وہ جس قدر دوسروں کی خاطر محنت سے کام کرتے ہیں اتنا ہی اپنے آپ کو نظرانداز کرتے ہیں، اتنے ہی زیادہ خوش ہوتے ہیں، جس سے انہیں اور بھی محنت سے کام کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ لیکن اگر ہم صرف اپنی خاطر کچھ کریں اور دوسروں کو نظرانداز کر دیں، تو اس سے ہمیں عدم مسرت، ناآسودگی، اور حوصلہ شکنی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہ عجب بات ہے کہ یہ معاملہ ایسا ہے۔ پس ہمیں اپنی غرض کو کم اور دوسروں کے لئے احساس کو، جتنا بھی ہو سکے، بڑھانا چاہئے، کیونکہ ایسا کرنے سے ہم ایک پرمسرت انسان بن جائں گے۔

اگر ہم صرف دوسروں کی خاطر کام میں لگے ہوۓ ہیں، جیسا کہ 'بودھی ستوا رویہ اختیارکرنا' میں ذکر ہے، تو ہمیں اپنے پنر جنم کی جگہ اور کیفیت کا کوئی خدشہ نہیں ہو گا۔ ہم جہاں بھی ہوں گے، دوسروں کی مدد میں مشغول ہوں گے۔ ناگارجن نے اپنی تحریر 'قیمتی مالا' میں اس بات پر زور دیا ہے۔ بدھیت حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ یہ کہ اوروں کی خاطر کام کرنا اور اپنے مقاصد کو نظرانداز کرنا۔

ہم اپنے آپ کو مہائینی کہتے ہیں، مگر جیسے کہ تسونگکھاپانے کہا ، کہ ایک مہائینی بننے کے لئے ہماری شخصیت بھی مہایان ہونی چاہئے۔ لہٰذا ہمیں اوروں کی خاطر کام کرنا چاہئے۔ اگر ہم اپنے گرد مدد پیش کرنے کی خاطر نظر ڈالیں اور ہم ایک بودھی چت عزم قائم کریں، تو خود بخود ایسے حالات پیدا ہو جائں گے جن سے سب مستفید ہوں گے۔ تو جس قدر بھی ممکن ہو ہمیں مہایان تربیت اور مشق پر چلنا چاہئے۔ آپ سمجھ گۓ نا؟

اب سوال یہ ہے کہ بودھی ستوا کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے لفظ مہاتما بدھ کے متعلق بیان کیا تھا، تبتی زبان میں "بودھی" کے لئے پہلا رکنِ کلمہ "جنگ" ہے جس کا مطلب کمزوریوں کو دور کرنا ہے، جبکہ دوسرا رکنِ کلمہ "چب" ہے، جس کا مطلب ہے تمام عمدہ اوصاف اپنانا۔ دراصل "بودھی" یا مصفّا کیفیات دو ہیں اور یہاں جس چیز کا ذکر ہے وہ ارہت کی کم والی نہیں، بلکہ وہ ایک مہاتما بدھ کی روشن ضمیری والی ارفع کیفیت ہے۔ "ستوا" سے مراد وہ شخص ہے جس نے اپنا من بودھی کی بلند اور مصفّا کیفیت، یعنی روشن ضمیری، حاصل کرنے کے لئے وقف کر رکھا ہے، تا کہ سب کا بھلا کر سکے۔

پس ہمیں دونوں کی بیک وقت ضرورت ہے۔ ہمیں محدود ہستیوں پر، ان کو فائدہ پہنچانے کی خاطر، توجہ دینا ہے اور اس کو ممکن بنانے کی خاطر روشن ضمیری پر توجہ دینا ہے۔ یہ ہے بودھی چت عزم جسے ہم نے استوار کرنا ہے۔ تو ہم یہ کام کیسے کریں؟

اپنے آپ کا دوسروں سے تبادلہ کرنا

(۱۱) ایک بودھی ستوا مشق یہ ہے کہ اپنی ذاتی خوشی کا دوسروں کے دکھ درد سے تبادلہ کرنا، کیونکہ ہمارا (تمام) دکھ درد، بغیر استثنا، ذاتی خوشی کے حصول کی تمنا سے آتا ہے، جبکہ ایک مکمل روشن ضمیر مہاتما بدھ کی روش دوسروں کی بھلائی کی خواہش ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام دکھ درد کی بنیاد ہماری محض اپنی ہی خوشی کی خواہش ہے؟ ایسی، اپنی ذات پر مرکوز، تمنا ہمیں اپنی ذاتی اغراض پورا کرنے میں ہم سے کئی تخریبی کام کرواتی ہے، جس کے نتیجہ میں ہم دکھ جھیلتے ہیں۔ دوسری طرف، بدھیت، دوسروں کی مدد کرنے سے ملتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے رویوں کا تبادلہ کرنا چاہئے، اور محض اپنی ذاتی خوشی کی تمنا کرنے اور دوسروں کے دکھ درد کو نظر انداز کرنے کے بجاۓ ہمیں صرف دوسروں کی خوشی اور اپنے آپ کو نظرانداز کرنے کی تمنا کرنی چاہئے۔

اس مقصد کے حصول کی خاطر ہم "لین اور دین" (تونگلن) کی مشق میں تربیت لیتے ہیں، یعنی دوسروں کا دکھ درد بانٹنا اور انہیں اپنی خوشی دینا۔ اس کام میں ہماری مدد کے لئے بڑی عمدہ اور مفید سوچ موجود ہے۔ ہم اپنے آپ کو دائں طرف اپنی معمول کے مطابق حالت، خود غرض اور محض اپنی خوشی کا خواہاں، میں تصور کرتے ہیں۔ اور بائں جانب، لاتعداد ہستیوں کا تصور کریں جو مسرت کی متلاشی ہیں۔ پھر ہمیں اپنے من میں، ذرا پیچھے ہٹ کر، بطور ایک ناظر اور منصف کے فیصلہ کرنا ہے کہ،"کون زیادہ اہمیت کا حامل ہے، یہ خودغرض انسان یا باقی تمام لوگ؟" سوچو کہ تم کس کی حمائت کرو گے اور کس کا ساتھ دینا چاہو گے – خودغرض انسان کا یا ان تمام بدحال ہستیوں کا، جو مسرت کی اتنی ہی حقدار ہیں؟ اس قسم کی مشق اور جن کا 'بودھی ستوا رویہ اختیارکرنا' میں ذکر ہے، سب نہائت مفید ہیں۔

بودھی ستوا رویہ: نقصان دہ چیزوں سے نبردآزمائی

(۱۲) بودھی ستوا مشق یہ ہے، اگر کوئی شخص شدید حرص کے باعث ہماری ساری دولت چراۓ یا دوسروں سے اسے چوری کرواۓ، تو ہمیں اس کے لئے اپنے اجسام، تمام ذرائع، اور سہ وقتی مثبت اعمال وقف کر دینے چاہئیں۔

اب ہم نے ایک بودھی چت عزم استوار کر لیا ہے۔ لہٰذا اب روشن ضمیری حاصل کرنے کی خاطر ہمیں بودھی ستوا روش اختیار کرنا ہے۔ اگر کوئی ہماری چوری کا مرتکب ہو، تو ہمارے ناراض ہونے کا خطرہ ہے۔ لیکن اگر ہم روشن ضمیری پانے کی مشق کر رہے ہیں اور اپنا سب مال اسباب دوسروں پر نچھاور کر رہے ہیں، تو پھر یہ نام نہاد چور ہماری دولت کا پہلے سے ہی مالک ہے۔ اس نے اب اس پر قبضہ کیا ہے، حالانکہ وہ پہلے ہی اس کی ملکیت ہے۔ لہٰذا، ہمیں نہ صرف یہ مال اسباب جو اس نے اب لیا ہے، یا جو ہم سمجھتے ہیں کہ اس نے چرایا ہے، اس کو اس کے نام وقف کرنا ہے، بلکہ مزید یہ کہ اپنے بدن اور سہ وقتی تعمیری اعمال بھی (اس کو وقف کرنے ہیں)۔

(۱۳) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے، ایسی صورت میں جب ہم قطعی طور پر بے قصور تھے، اگر کوئی ہمارے سر بھی کاٹ پھینکے، ہم اس فعل کے منفی اثرات کو قبول کر لیں، درد مندی کی قوت کے ذریعہ۔

اگر لوگ ہمیں نقصان پہنچائں، ہمیں چاہئے کہ ان کے لئے درد مندی کا اظہار کریں، اور ان کی طرف سے سب نقصان قبول کر لیں۔

(۱۴) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے، اگر کوئی ہزاروں، لاکھوں، اربوں جہانوں میں، ہمارے خلاف طرح طرح کی بری باتوں کا چرچا کرے، تو ہم جواباً محبت کے رویہ سے، اس کی صفات کا ذکر کریں۔

جب اور لوگ ہمارے بارے میں بدخوئی کریں، تو ہمیں جواباً کوئی بری بات نہیں کہنی چاہئے۔ جواب میں کوئی گھٹیا بات مت کہو، بلکہ صرف ان کے متعلق کوئی اچھی بات کہو، جیسا کہ شانتی دیو نے 'بودھی ستوا رویہ اختیارکرنا' میں بیان کیا۔

(۱۵) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے، اگر کوئی ہماری کمزوریوں کو بے نقاب کرے یا (ہمارے متعلق) برے کلمات کہے بہت ساری آوارہ ہستیوں کے درمیان، تو ہم اس کے آگے احتراماً جھکیں، یہ جان کر کہ (وہ) ہمارا روحانی مرشد ہے۔

اگر لوگ دوسروں کے سامنے ہماری توہین و تذلیل کریں، مگر ہمیں پھر بھی ایسی روش اختیار کرنی چاہئے جیسا کہ اپنے رویوں کو مصفّا کرنے (من کی تربیت) میں سکھایا گیا ہے۔ اگر لوگ ہماری بےعزتی کریں یا ہماری کمزوریوں کو بے نقاب کریں، تو وہ دراصل ہمارے استاد ہیں۔ پس ہمیں انکا شکر گذار ہونا چاہئے کہ انہوں نے ہمیں ہماری کمزوریوں سے باخبر کیا، اور ہمیں انکی بہت عزت کرنی چاہئے۔

(۱۶) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے کہ اگر کوئی شخص جس کا ہم نے خیال رکھا، اپنے بچے کی طرح چاہا، اگر ہمیں اپنا دشمن سمجھے، تو ہم اس سے خاص شفقت سے پیش آئں، جیسے ایک ماں اپنے بیمار بچے کا خیال رکھتی ہے۔

اگر کوئی شرارتی بچہ بیمار پڑ جاۓ، تو خواہ وہ کتنا ہی برا ہو، اس کی ماں پھر بھی اس سے پیار ہی کرے گی۔ ہمیں تمام ہستیوں کو اسی طرح سمجھنا چاہئے۔

(۱۷) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے، اگر کوئی شخص جو ہمارے برابر یا ہم سے کمتر ہو، (ہم سے) بدتمیزی سے پیش آۓ اپنے تکبّر کے باعث، تو ہمیں چاہئے کہ اسے سر آنکھوں پر بٹھائں، ایک گرو کی مانند۔

اس بات کا اطلاق اس وقت بھی ہوتا ہے جب لوگ ہمارے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ ہمیں صبر کرنا سیکھنا چاہئے۔ جیسا کہ 'بودھی ستوا رویہ اختیارکرنا' میں مذکور ہے، اگر ہمارے دشمن نہ ہوتے تو ہم کبھی صبر کا سبق نہ لیتے۔ لہٰذا ہمیں کسی ایسے ناروا شخص کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے ہم برداشت کا مادہ پیدا کر سکیں۔ ہم اپنے من کی توجہ اپنے گرؤں یا مہاتما بدھ پر مرکوز کر کے صبر پیدا نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ہمیں ایک دشمن چاہئے۔

مثال کے طور پر، میں اپنے بارے میں سوچتا ہوں۔ اگر کوئی شخص اخبار میں لکھے یا زبان سے دلائی لاما کو ایک کمزور پناہ گیر وغیرہ پکارے، تو اگر میں خلوص سے مشق کر رہا ہوں، تو مجھے اس سے صبر سے کام لینا چاہئے۔ صبر کا سبق لینے کے لئے چونکہ ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے، تو کوئی دشمن یا ایسا شخص جو ہم سے نفرت کرتا ہو اُس استاد کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

اگر ہم اس پر ذرا غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ دشمن نہائت اہم ہیں، ہیں نا؟ اگر ہم مہایان کی مشق کر رہے ہیں تو ہمیں صبر اور مصیبتوں کو برداشت کرنے کی قوت استوار کرنا ہے۔ ہم بغیر دشمنوں کے کیسے مہایان کی مشق کر سکتے ہیں؟ مختصر یہ کہ اپنے اور دوسروں کے رویہ کے باہمی تبادلہ کے لئے ہمیں بہت ساری مشکلات اور امتحانات سے گذرنا ہے۔ لہٰذا دشمن اور ناروا لوگوں کا وجود اہم اور قیمتی ہے۔

دو نہائت اہم صورتیں جن میں دھرم کی مشق کی ضرورت ہے

(۱۸) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے، اگر ہم روزگار کے معاملہ میں بدحال ہوں اور ہر وقت طعن و تشنیع کا شکار ہوں، یا خوفناک بیماریوں کا شکار ہوں، یا بھوتوں کے زیرِسایہ ہوں، تو ہم اس کے بدلے میں، قبول کریں، منفی قوتوں اور آوارہ ہستیوں کے دکھ کو اور دل برداشتہ نہ ہوں۔

دھرم کی راہ پر چلنے کی دو نہائت اہم صورتیں ہیں۔ ایک وہ جب، گذشتہ اعمال کی بدولت، ہم نہائت مصیبت میں ہیں، غربت وغیرہ کا شکار ہیں۔ اس صورت میں ہم ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ دوسری وہ جب ہم نہائت خوشحال اور دولت مند ہوں۔ ایسی صورت میں ہم غروروتکبّر کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ہمیں دونوں ہی صورتوں میں محتاط رہنا چاہئے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم شدید بیمار ہوں اور ایسی حالت میں دوسروں کے ساتھ باہمی تبادلہ اور لین دین کریں، تو ہمیں اپنی بیماری پر خوشی ہو گی۔ درحقیقت، ہم دوسروں کی بیماری اور دکھ درد اپنے اوپر لینے کو تیار ہوں گے۔

(۱۹) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے، خواہ ہماری بے پناہ تعریف ہو، کئی آوارہ ہستیاں ہمارے سامنے سرِتسلیم خم کریں، یا وائیشراون (دولت کا رکھوالا) جتنی دولت اکٹھی کر لیں، پر کبھی بھی مغرور نہ ہوں، یہ جان کر کہ دنیاوی خوشحالی جوہر سے خالی ہے۔

یہ دوسری حد ہے، دوسری ممکنہ خطرناک صورت۔ اگر ہم بہت قدرومنزلت رکھتے ہیں اور ہمارے تمام حالات سازگار ہیں، تو ہم اس پر بہت مغرور و مجہول بن سکتے ہیں۔ چونکہ یہ ہماری مشق میں مخل ہوتی ہے، تو ہمیں جاننا چاہئے کہ دنیاوی کامیابی جوہر سے عاری ہے۔

دشمنی اور تعلق پر قابو پانا

(۲۰) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے کہ اپنے من کے سلسلوں کو سدھانا محبت اور درد مندی کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر، کیونکہ، اگر ہم نے دشمن کو جو کہ ہماری اپنی دشمنی ہے، قابو نہیں کیا، اگر ہم نے کسی خارجی دشمن کو دبایا بھی ہے، تو مزید چلا آۓ گا۔

غصے سے بُرا اور کوئی دشمن نہیں۔ اگر ہم دنیا کو دیکھیں، مثلاً دوسری جنگ عظیم کی صورت حال کو، تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی وجہ غصہ اور نفرت تھی۔ اس وقت روس اور مغربی ممالک متحد تھے، اور اگرچہ انہوں نے جنگ جیت لی، مگر وہ اپنی دشمنی کو فتح نہ کر سکے! اب جیسا کہ ان کے اندر یہ زہر بھرا ہوا ہے، ہم روس کو مغربی ممالک کے خلاف بر سرِ پیکار پاتے ہیں۔ اگر مستقبل میں پھر جنگ ہوئی، تو اس کی وجہ بھی غصہ اور نفرت ہو گی۔ لیکن اگر ہم امن اور مسرت چاہتے ہیں تو اس کا حصول ان منفی رویوں کے اتلاف کے بغیر ممکن نہیں۔ امن اور مسرت اسی صورت میں ممکن ہیں اگر ہم محبت اور درد مندی پیدا کریں۔ اس لئے ہمیں نفرت پر قابو پانے کے لئے محبت اور درد مندی کے مارشل آرٹس کی تربیت لینی چاہئے۔

(۲۱) ایک بودھی ستوا مشق یہ ہے کہ فوراً ایسی چیزوں کو ترک کر دیں جو تعلق اور لگاؤ کو بڑھاتی ہیں، کیونکہ مرغوب اشیا نمکین پانی کی مانند ہیں: جتنا ہم (ان میں) دلچسپی لیں، اتنی ہی (ان کے لئے) ہماری پیاس (بدلہ میں) بڑھتی ہے۔

ہمارے لئے خواہ جو شے بھی پر کشش ہو، ہم اس سے کبھی مطمٔن نہیں ہوتے؛ ہمارا اس سے کبھی جی نہیں بھرتا۔ یہ ایسا ہے جیسے نمکین پانی پینا: ہماری پیاس کبھی نہیں بجھتی، جیسا کہ 'قیمتی مالا' میں مذکور ہے۔ ایک مثال لو: جیسے جب ہمیں خارش ہو رہی ہو۔ جب ہم اسے کھجاتے ہیں تو سکون ملتا ہے۔ لیکن اگر ہم اس سکون کے عادی ہو جائں، تو ہم جتنا زیادہ کھجائں گے، اتنا ہی زخم خراب ہو گا۔ یہ ناسور بن جاۓ گا، اس سے خون رسنے لگے گا، اس میں جراثیم پیدا ہو جائں گے، اور یہ ایک مصیبت ہو گی۔ بہترین صورت یہ ہے کہ شروع ہی میں کھجلی کا علاج کیا جاۓ، تا کہ ہمیں اسے کبھی کھجانے کی خواہش ہی نہ ہو۔

عمیق ترین بودھی چت استوار کرنا، خالی پن کا تکمیل حصول

(۲۲) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے کہ اشیا کے فطری عناصر بمعہ ان کے منوں کے، کو من میں قبول نہ کرنا، اس احساس کے ساتھ کہ اشیا کا وجود کیسا ہے۔ خواہ وہ کیسی ہی نظر آتی ہوں، وہ ہمارے من کی اختراع ہیں؛ اور من بذاتِ خود، ازل سے ہی، حد سے متجاوز جعلساز ہے۔

یہ بات سواتنریک نظریہ کا اظہار لگتی ہے کہ (فطری عناصر کا وجود رسمی ہے، مگر گہری سچائی کے مطابق ان کا قطعی طور پر کوئی وجود نہیں)، مگر لازم نہیں کہ یہ ایسے ہی ہو۔ یہ جو یہاں ذکر ہے کہ "مظاہر ہمارے من کی پیداوار ہیں،" اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس لحاظ سے ہمارے من کی اختراع ہیں کہ ہمارے منوں میں جمع شدہ کرم تمام مظاہر کو جنم دیتے ہیں۔ من بذاتِ خود، شروع سے ہی، فطری وجود کے انتہا پسند تصورات سے آزاد ہے۔

اگر ہم یہ بات سمجھ لیں تو پھر ہم اپنے من میں یہ نہیں کہیں گے کہ "یہ" وہ شعور ہے جو خالی پن کو سمجھتا ہے اور "وہ" شے اس شعور کا ہدف ہے، یعنی خالی پن۔ بلکہ ہم اپنے منوں کو خالص اور واضح تنسیخ (عدم توثیق نفی) کے مکمل ادراک پر مامور کر دیں گے، جو کہ خالی پن ہے – وجود کی تمام ناممکن صورتوں کی حتمی غیر موجودگی۔ اس مشق کا یہاں ذکر ہے۔

(۲۳) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے، جب ہمارا سامنا خوشگوار چیزوں سے ہو، تو ہم ان کے وجود کو سچ نہ مانیں، اگرچہ وہ بہت دلکش نظر آئں، موسمِ گرما کی قوس قزح کی مانند، اور (پس) تعلق اور لگاوٹ سے بچیں۔

اگرچہ دیکھنے میں چیزیں قوسِ قزح کی مانند خوبصورت لگتی ہیں، لیکن ہمیں جاننا چاہئے کہ وہ فطری وجود سے عاری ہیں اور ان سے تعلق نہیں جوڑنا چاہئے۔

(۲۴) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے، جب حالات نہائت مخدوش ہوں، تو انہیں فریبِ نظر سمجھو، کیونکہ بہت سارے آلام خواب میں بچے کی موت کے مانند ہیں اور(ایسے) فریبِ نظر مظاہر کو سچ ماننا بہت بڑا ضیاع ہے۔

پس، ہمیں ہر شے کو فریبِ نظر مظاہر جاننا چاہئے اور مخدوش حا لات سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ تعلیمات روائتی اور عمیق بودھی چت استوار کرنے کے متعلق ہیں۔ اگلی بات چھ دوررس رویوں (چھ کمالات) کی مشق کے بارے میں ہے۔ ملاحظہ کیجئے:

چھ دور رس رویے

(۲۵) ایک بودھی ستوا مشق فراخدلی سے دینا ہے بغیر اس کے عوض کسی شے کی توقع کئے اور کسی کرمائی چیز کی پختگی کا انتظار، کیونکہ، جو روشن ضمیری کے متمنی ہیں اگر وہ اپنے بدن بھی دینے کو تیار ہیں، تو دنیاوی مال و متاع کا تو ذکر ہی کیا؟

یہ دور رس فیاضی کی مشق ہے۔

(۲۶) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے کہ اخلاقی ضبط نفس کی حفاظت کی جاۓ بغیر دنیاوی اغراض کے، کیونکہ، اگر ہم بغیر اخلاقی ضبط نفس کے اپنے ہدف پورے نہیں کر سکتے، تو دوسروں کے ہدف پورے کرنے کی خواہش محض تمسخر ہو گا۔

سب سے اہم بات اخلاقی ضبط نفس ہے، خصوصاً تخریبی اعمال سے پرہیز کی تربیت۔ اس کے بغیر، ہم کیسے کسی کی مدد کرسکتے ہیں؟

(۲۷) صبر کی عادت ڈالنا ایک بودھی ستوا مشق ہے، کسی کے بھی خلاف بغیر عناد اور نفرت کے، کیونکہ، کوئی بودھی ستوا جو مثبت قوت کے خزانہ کا متمنی ہے، اس کے تمام دشمن اس کے لئے جواہرات کا خزانہ ہیں۔

ہمیں بہت زیادہ صبر چاہئے۔ ایک ایسا بودھی ستوا جو روشن ضمیری حاصل کرنے کی خاطر مثبت توانائی پیدا کرنے کا تمنائی ہے، اس کے لئے وہ لوگ جو نقصان پہنچاتے ہیں، ہمارے دشمن، ہیرے جواہرات کی مانند قیمتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ (میل جول میں) ہم صبر کی مشق کرسکتے ہیں۔ اس سے ہمارا مثبت قوت کا جال استوار ہوتا ہے، جو روشن ضمیری کے حصول کا باعث ہو گا۔

(۲۸) پر مسرت استقامت کا اظہار ایک بودھی ستوا مشق ہے، جو تمام بھٹکی ہوئی ہستیوں کے لئے عمدہ صفات کا منبع ہے، ہم چونکہ دیکھ سکتے ہیں کہ شراوک اور پرتیک-بدھ بھی، جو محض اپنی غرض پوری کرتے ہیں، صرف اتنا استقلال رکھتے ہیں کہ وہ اس آگ سے منہ موڑ لیں گے جو ان کے سروں پر لگے۔

اس سے مراد پر مسرت استقلال کا اظہار ہے جس میں تعمیری رویہ کی خاطر پرجوش طاقت شامل ہو۔ اگر ہینیان مسلک کے پیروکار اپنے ذاتی مقاصد پورے کرنے کے لئے اس قدر محنت سے کام کر سکتے ہیں، تو ہم مہایان کو جو سب کی خاطر بر سر پیکار ہیں ان سے بھی زیادہ محنت سے کام کرنا چاہئے۔

(۲۹) ایک بودھی ستوا مشق یہ ہے کہ من کو استقامت کی ایسی عادت ڈالنا جو خالصتاً چار غیر متشکّل (استغراق) پر سبقت لے جاۓ، اس احساس کے ساتھ کہ من کی ایک غیرمعمولی حالت، جس پر ایک ساکن اور جامد کیفیت کی عنائت ہو، مکمل طور پر پریشان کن جذبات اور رویوں پر غلبہ پا سکتی ہے۔

اس کا تعلق سوتر کے حوالے سے من کی استقامت (ارتکاز) کے دور رس رویہ سے ہے۔ پس وپاشیانا (خصوصی غائرانہ نظر) من کی غیر معمولی زیرک حالت پانے کے لئے، ہمیں پہلے سے شماتھ (من کی بے حسی، خاموش پابندی) کی پرسکون اور مستحکم حالت میں ہونا چاہئے، جو اسے پکڑے رکھے۔ اس طرح ہمارے پاس دونوں، شماتھ اور وپاشیانا، کی مضبوط جوڑی ہو گی۔

(۳۰) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے کہ امتیازی آگہی کی عادت ڈالنا جس میں عبادات شامل ہوں اور جس میں تین چکروں کا کوئی تصور نہ ہو، کیونکہ امتیازی آگہی کے بغیر، پانچ دور رس رویّے مکمل روشن ضمیری کا حصول ممکن نہیں بنا سکتے۔

ہم محض مشق، یعنی پہلے پانچ دور رس رویّوں کے ذریعہ روشن ضمیری حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ہمیں حکمت بھی درکار ہے۔ لہٰذا، ہمیں متصل مشق اور حکمت کی پرداخت کرنی چاہئے۔ ہمیں امتیازی آگہی درکار ہے تا کہ ہم جان سکیں کہ ان دور رس رویّوں پر مبنی تعمیری عمل کے تین چکر – یعنی کارندہ، مفعول، اور فعل – تمام فطری وجود سے عاری ہیں۔

اگلی بات ایک روزمرّہ بودھی ستوا مشق کے متعلق ہے۔

ایک روزمرّہ بودھی ستوا مشق

(۳۱) ایک بودھی ستوا مشق یہ ہے کہ اپنی خودفریبی کا باقاعدگی سے جائزہ لینا اور اس سے چھٹکارا پانا، کیونکہ، اگر ہم خود اپنی خودفریبی کا جائزہ نہیں لیں گے، تو یہ ممکن ہے کہ ہم کسی دھرمی (خارجی) شکل میں کوئی غیر دھرمی کام کر بیٹھیں۔

باالفاظ دیگر، ہمیں ہر روز اپنے پریشان کن جذبات اور رویّوں کا جائزہ لینا چاہئے، کیونکہ یہاں یہ بیان ہے، کہ یہ عین ممکن ہے کہ ہم باہر سے بالکل ٹھیک ٹھاک نظر آئں مگر درحقیقت ایسا نہ ہو۔

(۳۲) ایک بودھی ستوا کی مشق یہ ہے کہ جو مہایان میں داخل ہوا ہے اس کی کمزوریوں کو زیرلب نہ لاۓ، کیونکہ، اگر پریشان کن جذبات اور رویّوں کے اثر تلے، ہم کسی بودھی ستوا کی بدخوئی کریں گے، تو ہم خود تنزّل کا شکار ہوں گے۔

ہمیں دوسروں میں ان کی کمزوریاں تلاش کرنے کی عادت کو توڑ دینا چاہئے۔ ہم نہیں جان سکتے کہ دوسرے لوگ کیسے ہیں اور ان کے کیا کمالات ہیں۔ خصوصی طور پر، بطور ایک مہایان کے، ہمیں صرف اوروں کی مدد اور انہیں فائدہ پہنچانے کے متعلق سوچنا چاہئے، نہ کہ ان میں کمزوریاں تلاش کرنے کے متعلق۔

(۳۳) ایک بودھی ستوا مشق یہ ہے کہ ہم عزیزواقارب اور سرپرستوں کے گھرانوں سے تعلق ختم کر دیں، کیونکہ، منفعت اور عزت (حاصل کرنے) کے چکر میں ، ہم ایک دوسرے سے جھگڑیں گے اور ہمارے سمع، سوچ اور مراقبہ کے کام ٹھنڈے پڑ جائں گے۔

اگر ہم ہر وقت اپنے سرپرستوں اور عزیزواقارب کے گھروں میں ٹھکانہ کریں تو یہ بہت خطرناک بات ہے۔ ہم لا محالہ مختلف قسم کے مسائل اور جھگڑوں میں الجھ جائں گے۔ لہٰذا ہمیں ان جگہوں سے تعلق جوڑنے سے گریز کرنا چاہئے۔

(۳۴) ایک بودھی ستوا مشق یہ ہے کہ ہم ترش کلامی سے گریز کریں جو دوسروں کے من کو ناروا ہے، کیونکہ سخت الفاظ اوروں کے من کو پریشان کرتے ہیں اور ہمارے بودھی ستوا رویہ میں گراوٹ کا باعث بنتے ہیں۔

غصے کی بنیاد ہمارا اپنے آپ سے لگاؤ ہے۔ مگر یہاں غصہ بذات خود دباؤ تلے ہے، خصوصاً جب یہ بد کلامی کا باعث ہو۔ سخت الفاظ ہماری مثبت قوت کو تباہ کر دیتے ہیں، دوسروں کو پریشان کرتے ہیں، اور نقصان پہنچاتے ہیں۔

(۳۵) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے کہ ذہنی چوکسی اور خبر گیری کو متناقض ہتھیاروں سے لیس کیا جاۓ اور بہ زور بازو پریشان کن جذبات اور رویّوں کو تباہ کر دیا جاۓ، مثلاً تعلق وغیرہ، جونہی وہ پہلی بار سر اٹھائں، کیونکہ، جب ہم پریشان کن جذبات اور رویّوں کے عادی ہوتے ہیں، تو ان کے مخالفوں کو انہیں شکست دینے میں دقت پیش آتی ہے۔

جونہی تعلق یا نفرت پیدا ہوں، ہمیں فوراً ذہنی چوکسی اور خبرگیری کو استعمال میں لا کر ان کا خاتمہ کردینا چاہئے۔

(۳۶) مختصراً، یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے کہ اوروں کی ضروریات پورا کرنے کی خاطر مستقل ذہنی چوکسی اور خبرگیری سے (کام لینا) یہ جان کر، خواہ ہم جیسا بھی اور جہاں بھی جو رویّہ اپناۓ ہوۓ ہوں، ہمیشہ اپنے من کی حالت سے باخبر رہیں۔

جیسا کہ 'بودھی ستوا رویّہ اختیارکرنا' میں مذکور ہے، ہمیں باقاعدگی سے اپنے منوں کا جائزہ لینا اور ان کی حالت پر نظر رکھنی چاہئے۔ اور پھر ذہنی خبرگیری کے ساتھ، ہمیں کوئی بھی موجود پریشان کن جذبات اور رویّوں کے خلاف مختلف مخالف عناصر استعمال میں لانے چاہئیں۔ مثال کے طور پر، اگر ہم کسی قافلے میں شامل ہوں اور تبت کی انتہائی بلندی پر جا پہنچیں، تو ہم نہائت چوکس اور ہوشیار ہوں گے کہ ادھر اُدھر نہ گھومتے پھریں۔ ہم پوری توجہ سے صحیح راستے کا تعیّن کریں گے؛ وگرنہ ہم آسانی سے گم ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں اپنے منوں کو بھی آوارگی سے بچانا چاہئے۔

(۳۷) یہ ایک بودھی ستوا مشق ہے، تین چکروں کے مکمل خالص پن کی امتیازی آگہی سے، ایسی جہد سے حاصل شدہ مثبت قوتوں کو روشن ضمیری کے لئے وقف کر دینا، تا کہ لاانتہا آوارہ ہستیوں کے دکھ کا مداوا ہو سکے۔

پس، یہاں جس آخری مشق کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ ان تمام اعمال سے حاصل شدہ مثبت توانائی کو روشن ضمیری اور دوسروں کے بھلے کے لئے وقف کر دینا۔ یہاں اصل متن ختم ہوتا ہے۔ اگلی بات خاکے کا تیسرا حصہ یعنی اختتامیہ ہے۔

اختتامیہ

مقدّس ہستیوں کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوۓ اور جو کچھ سوتر، تنتر، اور علمی مقالوں میں مذکور ہے، کے معانی کے مطابق، میں نے بودھی ستوا کی (یہ) عبادات ترتیب دی ہیں، تیس اور سات، ان کی خاطر جو بودھی ستوا مسلک کی تربیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

مصنف نے مختلف ذرائع سے یہ تعلیمات لیکر انہیں ان سینتیس مشقوں کی شکل میں مرتب کیا ہے۔

چونکہ میری فہم ناقص اور تعلیم کم ہے، ہو سکتا ہے یہ شاعرانہ بحر میں نہ ہوں جو ایک عالم کو بھاتی ہے۔ لیکن چونکہ میں نے سوتر اور مقدّس ہستیوں کی بات پر تکیہ کیا ہے، تو میرے خیال میں (یہ) بودھی ستوا عبادات عیب سے پاک ہیں۔

آگے مصنف غلطیوں کی، اگر کوئی سرزد ہوئی ہیں، معافی چاہتا ہے۔

بہرحال، چونکہ مجھ جیسے ناقص العقل کے لئے بودھی ستوا رویّہ کی دانش ورانہ تعلیمات کی گہرائی تک رسائی مشکل ہے، میں مقدّس ہستیوں سے التجا کرتا ہوں میری ڈھیرساری غلطیوں کو درگذر کریں، جیسے متناقض باتیں، عدم ربط، وغیرہ۔

اور پھر آخری دعا کے ساتھ وہ ختم کرتا ہے۔

اس سے جو مثبت توانائی پیدا ہوئی، کاش تمام آوارہ ہستیاں، عظیم گہرے اور روائتی بودھی چت کے توسط سے، محافظ آوالوکیت-ایشور کے برابر بن جائں، جو کبھی بھی اضطراری سمساری وجود یا نروانی آسودگی کی انتہا پسند صورتوں کا پابند نہیں ہوتا۔

یہاں 'سینتیس بودھی ستوا عبادات' از توگمے- زنگپو کا اختتام ہوتا ہے۔

Top