من کو سِدھانا

Mt 37 dl taming the mind

ترغیب

آج یہاں مختلف جگہوں سے بہت سارے لوگ آۓ ہیں، حتیٰ کہ تبت سے بھی، اور آپ سب کا مقصد دھرم کی تعلیمات کو سننا ہے۔ چنانچہ ایک بودھی چت عزم استوار کرنے کے متعلق میں آج یہاں بودھ گیا میں 'سینتیس بودھی ستوا مشقیں' از توگمے-زنگپو اور 'تین اصولی مسلک' از جے تسونگکھاپا پر درس دوں گا۔ چونکہ ہم ایک نہائت مقدس جگہ پر ہیں اس لئے یہاں مثبت توانائی اور انعام کی مستحق خوبی بھی دوسری جگہوں کی نسبت بہت زیادہ طاقتور ہے۔ لیکن اس مثبت قوت کو زیادہ سے زیادہ موثّر بنانے کے لئے بہت وسیع پیمانہ پر رغبت کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف درس لینے والوں کے لئے ضروری ہے بلکہ لاما یا گرو کے لئے بھی لازم ہے۔

ایک پوری طرح روشن ضمیر مہاتما بدھ، مکمل باریابِ دردمندی، کا بدن ایسا ہے جس میں بتیس بڑی اور اسّی چھوٹی خصوصیات ہیں، اور گفتار کی ایسی قوت ہے جس میں ضمیر کو روشن کرنے کی ساٹھ خصوصیات ہیں۔ مزید برآں، اس کامن تمام پریشان کن جذبات، رویوں اور الجھنوں سے پاک ہوتا ہے اس طرح کہ اسے ہر دم براہ راست غیر تصوراتی انداز میں خالی پن کی پہچان ہوتی ہے، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ تمام مظاہر کی بھی ان کی اصلی حالت میں۔ ایک ایے ہی دردمند، مکمل روشن ضمیر مہاتما بدھ کا یہاں بودھ گیا میں ۲،۵۰۰ برس قبل ظہور ہوا، اور ہم آج یہاں اس جگہ موجود ہیں۔

آجکل جنگ، قحط اور آفات کے باعث حالات بہت مخدوش ہیں۔ لیکن پھر بھی اپنی جمع شدہ گذشتہ مثبت طاقت کی بدولت ہم ایسے وقت اور ایسی جگہ پیدا ہوۓ ہیں، اور ایسے مشکل وقت میں بھی ہمیں سیکھنے اور گرووں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم جو سیکھیں حتی المقدور اس پر عمل کریں۔

دھرم کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ کچھ مانگنے کی خاطر دعا کرنا۔ دھرم ایک ایسی صنف ہے جس کی ہمیں ذاتی طور پر ضرورت ہے جس پر ہم عمل کر سکیں۔ اس سے مراد منہ سے چند کلمات ادا کر کے محفوظ راہ کی تلاش نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ جو ہم کہتے ہیں اس پر اپنی روزمرہ زندگی میں عمل کریں۔ پس ہمیں تعلیمات میں گہری دلچسپی لینے کی ضرورت ہے، اور ہمیں ان کے مطالعہ اور اس پر عمل کے مشترکہ کام میں حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ مگر پہلے اس کے طریق کار کو جاننا ضروری ہے۔

دھرم ایسی چیز ہے کہ اس میں جس قدر زیادہ دلچسپی لیں اتنا ہی ہماری خوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ہمارے گذشتہ مثبت اعمال (انعام کی مستحق خوبیوں کا مجموعہ) کے نتیجہ کے طور پر ظہورپذیر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں مہاتما بدھ کا استقرا کرنا لازم ہے، محض زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے اعمال سے بھی۔ اس سے خوشی میں مزید اضافہ ہو گا۔ لہٰذا یہاں بودھ گیا میں اب جبکہ ہمیں دھرم سے دوچار ہونے کا اچھا موقع میسر ہے، خصوصاً مہائین دھرم سے، تو یہ ضروری ہے کہ ہم جس قدر بھی مثبت توانائی پیدا کر سکیں، کریں۔ اس کے لئے سب سے اہم بات معقول ترغیب کا تعین ہے۔ اگر ہماری ترغیب وسیع تر اور مثبت ہو گی تو اس سے بہت سا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم بغیر کسی ایسی ترغیب کے مشق کریں تو وہ کچھ خاص موثّر نہیں ہو گی اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

کسی لاما کے لئے بھی معاملہ ایسا ہی ہے۔ لاما کو تعلّی، شہرت، عزت، یا حسد یا دوسروں سے مقابلہ کرنے کی خاطر درس نہیں دینا چاہئے۔ اس کا محرک صرف اور صرف دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا، اور بغیر کسی کو کمتر جانے سب کی، جو یہاں موجود ہیں، عزت کرنا ہونا چاہئے۔ سامعین کو بھی تکبّر نہیں دکھانا چاہئے، بلکہ دھیان سے اور ادب سے مہاتما بدھ کی قیمتی تعلیمات کو سننا چاہئے۔ اگر لاما اور ان کے چیلے دونوں ایسا عمدہ رویہ رکھیں، تو یہ نہائت سود مند ہوگا اور ہم بہت ساری مثبت توانائی پیدا کر سکیں گے۔

خواہ ہمارے پریشان کن رویے اور جذبات کچھ ہی ہوں، ان کا علاج لازم ہے اور مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ اس طرح ہم اپنے مسائل کو آہستہ آہستہ حل کر سکیں گے، اور آخر کار ان سے مکمل نجات حاصل کر لیں گے۔ ہم سال بہ سال دھیرے دھیرے بہتر ہوتے چلے جائں گے۔ چونکہ ہمارا من فطری طور پر ان پریشان کن جذبات اور رویوں سے داغدار نہیں ہے، تو اگر ہم ان کی صفائی کا پکا ارادہ کر لیں تو ہم اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہمارے دکھ کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارے من نظم و ضبط سے عاری ہوتے ہیں یا سدھاۓ نہیں ہوتے، تو ہمیں اس چیز کا تدارک کرنا ہے۔ مگر یہ سب یکدم نہیں ہو گا۔

مثال کے طور پر، اگر ہم کسی سخت وحشی اور اڑیل انسان کو امن پسند اور باتمیز بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں اس میں کئی برس کے بعد کامیابی ہو گی۔ ہمارے من کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگرچہ ہمارے اندر کمزوریاں ہیں مگر ہم آہستہ آہستہ بہتر ہو سکتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ شروع میں وہ کچھ نہیں جانتے؛ وہ بالکل ناخواندہ ہوتے ہیں۔ وہ سکول میں مختلف کلاسوں میں جاتے ہیں، پہلی جماعت، دوسری جماعت،وغیرہ، اور اس بتدریج سلسلہ سے گذر کر وہ آخر کار تعلیم یافتہ بن جاتے ہیں۔ یہ بات گھر بنانے میں بھی سچ ہے، ہم اسے منزل بہ منزل تعمیر کرتے ہیں۔ ہم یہ کام بتدریج کئے جاتے ہیں اس فکر سے بے نیاز کہ اس میں کتنا وقت لگے گا، اور مختلف مراحل سے گذرتے ہیں حتیٰ کہ کام مکمل ہو جاۓ۔ اپنے من کے معاملہ میں بھی ہمیں یہی رویہ رکھنا چاہئے۔

جہاں تک اپنی ترغیب کے تعیّن کا تعلق ہے، تو ہمیں اس کا اپنے طور پر بہترین فیصلہ کرنا چاہئے، اور ہم آہستہ آہستہ بتدریج ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے جیسا کہ 'لم-رم' یا "بتدریج راہ" میں مذکور ہے۔ آپ میں سے اکثر اس سے واقف ہیں مگر جو لوگ نئے ہیں ان کے لئے میں اس کے چند اہم نکات پر روشنی ڈالوں گا۔

من کو سدھانا

دھرم کی راہ پر چلنا ایسا نہیں جیسے کپڑے، رتبہ یا دولت کی مقدار کو تبدیل کرنا۔ اس کا مطلب ہمارے رویّے اور من میں تبدیلی لانا ہے۔ خواہ ہم کوئی بھی ہوں – حتیٰ کہ میں بھی، یعنی دلائی لاما – میں بھی اس وقت تک دھرم کا بندہ نہیں سمجھا جاؤں گا جب تک کہ میرا من قابو میں نہ ہو۔ اور ہم کسی شخص کا من ایسا ہونے کے بارے میں محض اس کے نام یا لباس کی بنیاد پر اثبات میں نہیں کہ سکتے۔ ہاں البتّہ اس کے من کی اور جذبات کی کیفیت کی بنیاد پر ہم ایسا کہہ سکتے ہیں۔ پس سب سے اہم کام اپنے من کو سدھارنا ہے۔

آپ سب جو یہاں موجود ہیں آپ کو اپنے من کا جائزہ لینا چاہئے۔ہم سب مسرت کے متلاشی ہیں اور کوئی بھی دکھ نہیں جھیلنا چاہتا۔ ہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو سردرد کی صورت میں اس سے نجات نہ چاہتا ہو۔ کیا ایسا نہیں؟ اس بات کا جسمانی درد اور من کے درد دونوں پر یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ مگر دکھ سے چھٹکارا پانے اور من پسند مسرت حاصل کرنے کے کئی مرحلے ہیں۔ یہ یکلخت وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ کسی جانور کو سدھانے اور اسے خوش کرنے میں بھی ہمیں اس جانور کے مزاج کے مطابق یہ کام درجہ بدرجہ کرنا ہوتا ہے۔ مثلاّ پہلے ہم اسے کچھ کھلانے پلانے کی کوشش کرتے ہیں، ہم اسے ڈرانے یا اس سے بد سلوکی سے اجتناب کرتے ہیں۔ ہمارا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ہمیں اپنی مدد بھی بتدریج کرنی چاہئے۔

اولاّ ہم آنے والے سال میں اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، یا اس سے اگلے سال۔ پھر ہم آئیندہ بیس سال کے متعلق سوچتے ہیں، اور پھر شائد اگلے جنم میں بطور انسان پیدا ہونے کے تا کہ ہم استمراری سطح پر مسرت حاصل کر لیں اور دکھ سے بچ سکیں۔ ہم ان مرحلوں سے گذرتے ہیں۔ لہٰذا اب جبکہ ہم انسان کے روپ میں ہیں تو یہ بات نہائت اہم ہے کہ ہم آگے کی سوچیں اور محض عارضی، اختیاری سطح پر نہیں بلکہ دائمی مسرت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

اپنی معمولات کی تلاشِ مسرت میں ہم خوراک، لباس اور رہائش کے متلاشی ہوتے ہیں۔ لیکن بطور انسان کے ہمارا مقصد اتنا ہی نہیں۔ اگر ہم امیر بھی ہوں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دولت مند لوگ بھی کافی من کا آزار اٹھاتے ہیں۔ یہ بات مغرب میں بہت عیاں ہے۔ وہاں بیشمار لوگ دولت سے مالامال ہیں اور بدنی آسائش سے پیراستہ ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ بیشمار من کے مسائل جیسے مایوسی، بے یقینی اور کئی الجھنوں کا شکار ہیں۔ درحقیقت ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کئی لوگ منشیات اور ادویات کے ذریعہ اپنی حالت کو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دولت اور مادی آرام و آسائش کے باوجود وہ من کی مسرت کے متلاشی ہیں، اور محض دولت سے وہ دونوں چیزیں نہیں حاصل کر سکتے۔ ہم خواہ کتنے ہی متموّل اور مضبوط کیوں نہ ہوں لیکن اگر ہمارے من ناخوش ہیں تو اس سے کام نہیں چلے گا۔ لہٰذا ہمیں دونوں یعنی مادی اور من کی مسرت درکار ہیں۔ ان دونوں میں سے من زیادہ اہم ہے کیونکہ یہ ہمارے اوپر حاوی ہے۔ لہٰذا ہمیں من کی مسرت پر زور دینا چاہئے۔

من کی مسرت پیدا کرنا

مگر کونسی چیز من کی مسرت کو جنم دیتی ہے؟ یہ ہمارے خیالات کے راستے آتی ہے۔ اگر ہم اپنے من اور سوچ سے کام نہ لیں تو ہم اپنے لئے مسرت پیدا نہیں کرسکیں گے۔ یہ دو دھار کی تلوار ہے۔ مثال کے طور پر، ہمارے مضبوط ترین پریشان کن جذبات کچھ ہی ہوں، غصہ، چاہت، تکبّر، حسد وغیرہ، ہم ان کے بارے میں جتنا زیادہ سوچتے ہیں اتنا ہی ان پر عمل کرتے ہیں، اور اتنا ہی زیادہ دکھ اٹھاتے ہیں۔ اگر غصہ ہمارا سب سے زیادہ پریشان کن احساس ہے تو ہم جس قدر زیادہ غصہ کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ رنجیدہ ہوتے ہیں۔

مثلاّ اگر ہم تبت کے متعلق رنجیدہ خاطر ہیں اور غصہ میں ہیں تو کیا ہم خوش ہیں یا ناخوش؟ ظاہر ہے کہ ہم ناخوش ہیں۔ لہٰذا اگر ہم اس کے الٹ محبت اور درد مندی کے متعلق سوچیں گے تو اس سے ہمارا غصہ کم ہو گا اور ہمیں دلی سکون ملے گا۔ پس ایک رحم دل اور نرم خیالات مسرت کا باعث بنتے ہیں۔ چونکہ ہم سب مسرت کے خواہاں ہیں اور اپنا دکھ درد دور کرنا چاہتے ہیں، اس لئے ہمیں جاننا چاہئے کہ اس کی تاسیس من پر ہے۔

مختصراً، جس قدر ہماری لگاوٹ اور کراہت شدید ہو گی اتنی ہی ابتلا زیادہ ہو گی۔ یہ جتنی کمزور ہوں ہم اتنا ہی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ پس ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہمیں کس چیز کا اتلاف کرنا ہے، کس سے اپنے من کو پاک کرنا ہے۔ مثلاً اگر ہم رشک و حسد کی آگ میں جلتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ ایک دن ہم سب کو مرجانا ہے تو ہم اپنے رشک کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ چونکہ ہم اپنی حاسدانہ خواہشات کو کبھی پورا نہیں کر پائں گے، تو جب تک ہم حسد اور رشک کو پالتے رہیں گے، ہم کبھی خوش نہیں ہوں گے۔ غرور کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کوئی بھی ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا؛ ہم ہمیشہ جوان اور پرجوش نہیں رہ سکتے۔ ہم جس چیز پر نازاں ہیں، اسے ایک روز کھو بیٹھیں گے۔ لہٰذا غرور بھی من کی ایک رنجیدہ صورت ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم کسی طعام گھر میں ہیں اور وہاں کسی کو عمدہ کھانا کھاتے دیکھ کر رشک کریں، تو اس سے ہمیں کیا ملے گا؟ اس سے محض رنج حاصل ہو گا؛ اس سے ہمارا پیٹ نہیں بھرے گا!

اگر ہم بطور تبتی بن کے سوچیں، تو ہم چینیوں سے ناراض ہوتے ہیں اور ان پر رشک کرتے ہیں، کیا اس سے ہم خوش ہوں گے؟ کیا یہ من کی پرمسرت حالت ہے؟ یہ قطعاً ایسا نہیں۔ کسی ایسے شخص کا تصور کریں جس کا کام سارا دن اپنی لگاوٹوں اور کراہتوں کو پالنا پوسنا ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا شخص بہت طاقتور اور مشہور ہو جاۓ؛ ہو سکتا ہے تاریخ میں اس کا نام آۓ۔ لیکن (سوال یہ ہے) اس شخص نے کیا کمایا ہے؟ اس نے محض تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ اسے خوشی نہیں ملی؛ وہ مر چکا ہے۔ پس اگر ہم اپنی تمام عمر اپنے پریشان کن جذبات کی پذیرائی میں گذار دیں؛ تو خواہ ہم کتنے ہی دولتمند اور طاقتور نہ ہو جائں، ہم خوش نہیں ہوں گے۔

مثلاً اگر ہم آج بودھ گیا میں اپنی موجودہ حالت پر غور کریں،تو ہم اس بات کو زیادہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں میرے ساتھ، دلائی لاما کی موجودگی میں اس مقدس جگہ پر، اگر تم کسی فقیر پر غصہ کرتے ہو، یا غیر موزوں حالات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہو، تو کیا اس لمحے تم خوش ہوتے ہو؟ دوسری جانب، جب تمہارے پریشان کن جذبات ٹھنڈے پڑے ہوں اور تم کوئی مثبت کام کر رہے ہو، تو کیا اُس وقت تم خوش ہوتے ہو؟ اس پر ذرا غور کرو۔

آپ کے من کی حالت آپ کے ہمسایوں، دوستوں اور بچوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اپنے گھر کی مثال لو جہاں تم بہت غصہ میں آ جاتے ہو اور بچوں پر ناراض ہوتے ہو، تم انہیں پیٹتے ہو اور وہ رونا شروع کر دیتے ہیں – اس سے ہر کوئی رنجیدہ ہوتا ہے، ہے نا؟ لیکن اگر تم ناراض نہیں ہو، بہت پرسکون ہو، تو تم بچوں کو کھیلنے دیتے ہو اور ہر کوئی خوش اور مطمٔن ہوتا ہے۔ کسی ملک میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اگر لاتعلقی اور برداشت کو اپنایا جاۓ تو وہاں سب لوگ خوش باش ہوں گے۔ یہ بات فرد، گھرانے اور ممالک سب پر صادق آتی ہے۔ پریشان کن جذبات جس قدر زیادہ ہوں گے اتنی ہی عدم مسرت بڑھے گی؛ جبکہ جس قدر پریشان کن جذبات کم ہوں گے اتنی ہی مسرت زیادہ ہو گی۔

جہاں تک میرا تعلق ہے میں پریشان کن جذبات اور رویوں کے نقصانات کے بارے میں کافی سوچتا ہوں، وہ سب مسائل جو ان سے پیدا ہوتے ہیں، اور میں ان کی عدم موجودگی کے فوائد پر بھی غور کرتا ہوں۔ اس سے مجھے اپنی زندگی میں کم سے کم پریشان کن جذبات کو جگہ دینے کی ترغیب ملتی ہے۔ تو بطور ایک اضافی منفعت کے ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی زیادہ خوشگوار ہے؛ کھانا زیادہ لذیذ ہے اور سب کام آسانی سے ہورہے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے من پریشان کن جذبات سے اٹے پڑے ہیں، تو پھر خواہ ہم مراقبے کریں، منتر وغیرہ جپیں، ہمیں ان سے کوئی خوشی نہیں ملے گی۔ پس اس لئے ہمیں ہر دم یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پریشان کن جذبات کس قدر نقصان دہ ہیں۔

قصہ مختصر، اگر ہمارے من سدھاۓ ہوۓ ہیں اور پریشان کن جذبات سے پاک ہیں، تو ہم بہت خوش ہوں گے۔ لہٰذا من کو سدھارنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پریشان کن جذبات اور رویّے سرے سے جنم ہی نہ لیں۔ لیکن اگر وہ سر اٹھائں بھی، تو دوسری اچھی بات یہ ہے کہ ہم ان پر عمل نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر یہ تو سب سے عمدہ بات ہے کہ ہم کبھی غصہ میں نہ آئں؛ لیکن اگر کبھی ہمیں غصہ آ بھی جاۓ تو ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنے من کو سدھا رکھا ہے تو ہم اس پر عمل نہیں کریں گے۔ مثلاً ہم کسی کو گھونسہ رسید نہیں کریں گے، نہ انہیں گالی دیں گے، یا ایسی ہی کوئی اور فضول حرکت نہیں کریں گے۔

لہٰذا دھیرے دھیرے، ایک بتدریج سلسلہ کے ذریعہ، ہم دیکھتے ہیں کہ مخالف عناصر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جاتے ہیں، اس طرح ہمارے من زیادہ سے زیادہ ہمارے قابو میں آتے ہیں اور ہمیں زیادہ خوشی ملتی ہے۔ لہٰذا بطور نوآموز کے، ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے غصہ، تعلق وغیرہ جیسے پریشان کن جذبات کبھی نہ ابھریں۔ لیکن اگر یہ کبھی پیدا ہوں بھی تو ہمیں ان پر عمل سے گریز کرنا چاہئے۔ آپ سمجھ گۓ نا؟ اپنے من کو سدھارنا دھرم کی ایک مشق ہے، لیکن اگر ہم ایسا نہ کر پائں تو یہ دھرم نہیں۔ اگر ہم مکمل طور پر پریشان کن جذبات کا اتلاف کر دیں، اگر ہم حقیقی روک تھام یعنی شانتی کی حالت میں آ جائں تو یہ درحقیقت صحیح دھرم ہے۔

چار آریہ سچائیاں

آریہ سچائیاں چار ہیں: حقیقی دکھ، ان کی اصل وجوہات، حقیقی روک تھام اور سچے راستوں پر گامزن من۔ حقیقی دکھ کی پہچان ہم عدم مسرت کی مختلف صورتوں سے کر سکتے ہیں: موت، بیماری، بڑھاپا وغیرہ۔ مہاتما بدھ کا کہنا ہے کہ دکھ سے واقفیت بہت ضروری ہے۔ اس دکھ کی وجہ کیا ہے؟ اس کی بنیاد ایک ان سدھایا من ہے، خصوصاً پریشان کن جذبات اور رویّے۔ لہٰذا پریشان کن جذبات اور رویّے ہمارے دکھ کا اصل سبب ہیں، جس طرح کہ کرمائی تحرک جو ان پریشان کن جذبات کے اثر تلے پروان چڑھتے ہیں۔ لہٰذا دکھ کا اصل سبب پریشان کن جذبات اور کرم ہیں۔ پس چونکہ ہم سب دکھ نہیں چاہتے، بلکہ اس کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اس دکھ کی وجہ ہمارے ان سدھاۓ من ہیں۔

چونکہ ہم اس دکھ کا اس طور خاتمہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ دوبارہ کبھی جنم نہ لے، تو ہمیں یہ کرنا ہے کہ ہم اپنے پریشان کن جذبات اور رویوں کو دھرم داتو یعنی خالی پن کے دائرہ میں تلف کر دیں۔ اسے حقیقی روک تھام کا نروان کہا جاتا ہے۔

چونکہ پریشان کن جذبات اور رویوں سے نجات حاصل کرنے، یا ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا پانے کا سلسلہ کئی مرحلوں میں طے کرنا ہوتا ہے، تو اس میں وہ چیز شامل ہے جسے آریہ یا بلندوبالا ہستیوں کے سچے من کہا جاتا ہے۔ اسے مزید تخصیص سے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ پریشان کن جذبات اور رویوں کو تلف کرنے کے دوران ہم مزید تر خوبیاں پیدا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں، ایسے من تشکیل دینے کی جو ایک طرف تو پریشان کن جذبات اور خامیوں کا خاتمہ کریں اور دوسری طرف اچھی خصوصیات بطور سچی راہ پر گامزن من کے پیدا کریں۔

مختصراً، بات یہ ہے کہ دکھ کا وجود حقیقی ہے؛ اس کی وجہ بھی حقیقی ہے؛ ہم انہیں واقعتاً ختم کرنا چاہتے ہیں؛ اور ایسا کرنے کی خاطر ہمیں حقیقت کی راہ پر گامزن من تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس سب کا نتیجہ یہ ہو گا کہ حتمی بندش واقع ہو، سکون یا نروان حاصل ہو۔ "ایسی حالت جو رنج سے ماورا ہو،" اور اس سے ہمیں دائمی مسرت ملے گی۔ یہی وہ چیز ہے جس کا گوتم بدھ نے یہاں بودھ گیا میں اپنی مثال سے مظاہرہ کیا، اور بعدازآں اس نے چار بلندوبالا سچائیوں کی تعلیم دی۔ تو پہلی دو، یعنی حقیقی دکھ اور اس کی حقیقی وجوہات، وہمی یا غیر مصفا ہیں، اور دوسری دو، یعنی حقیقی بندش اور سچی راہ پر گامزن من، نروان یا مصفا ہیں۔

پس ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ دھرم کی راہ پر چلنے کی ترغیب محض اس بچے کی مانند نہیں جو اپنے ماں/باپ کا کہا اس لئے مانتا ہے کہ چونکہ انہوں نے اسے ایسا کرنے کو کہا ہے۔ دھرم پر عمل محض ایک فرمانبردار بچے کی مانند جو اپنے ماں باپ کا کہنا مانتا ہے، نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے بجاۓ ہم دھرم کی راہ پر اس لئے چلتے ہیں کیونکہ ہم اپنا دکھ درد دور کرنا چاہتے ہیں، اور اپنے من کو سدھانے کی خاطر ہم استاد کی بات پر عمل کرتے ہیں۔ آپ سمجھ گئے نا؟

تین اعلیٰ ترین جوہر

دکھ درد دور کرنے میں کئی چیزوں کا عمل دخل ہے۔ مثال کے طور پر، بھوک، سردی وغیرہ کے جو دکھ ہیں انہیں دور کرنے کے لئے ہم کوئی اور طرح کے طریقے اختیار کریں گے۔ یعنی کسانوں، تاجروں وغیرہ کی خدمات سے فائدہ اٹھا کر ہم بھوک اور سردی کا مداوا کر سکتے ہیں۔ بیماری کے لئے ہم طبیبوں اور ادویات کی جانب رجوع کریں گے۔ مگر یہ محض عارضی علاج ہیں، دائمی نہیں۔ بیماری کی حالت میں ہم دوا لے کر اپنی قوت بحال کر سکتے ہیں، مگر اس سے بڑھاپے اور موت کا علاج نہیں ہو گا۔ مختصراً، ہم پیدائش، علالت، عمر رسیدگی، اور موت کا عمومی حربوں سے حتمی خاتمہ نہیں کر سکتے، خواہ بعض طریقے عارضی فائدہ پہنچائں بھی۔

بہت سے مذاہب، مثلاً بعض ہندو فرقے، عیسائیت، یہودیت، اسلام وغیرہ ایک ایسے خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو دکھ اور سکھ کا خالق ہے۔ اگر ہم اس خدا کی مشق کریں تو وہ ہمیں مسرت سے نوازے گا۔ مگر مہاتما بدھ نے یہ تعلیم نہیں دی۔ اس نے کہا کہ ہمارا دکھ اور سکھ کُلّہُم ہمارے ہاتھ میں ہے۔

ہم تین اعلیٰ ترین جوہروں پر یقین رکھتے ہیں۔ مہاتما بدھ وہ ہستی ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ کیا قابل قبول ہے اور کیا نہیں۔ لہٰذا مہاتما بدھ ایک استاد ہے، خالق خدا نہیں۔ ہمارے کرم یا ہمارا رویّہ ہمارے دکھ سکھ کا باعث ہے۔ مثبت یا تعمیری اعمال مسرت دیتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں، جس حد تک بھی ممکن ہو، ایسی ہی روش اختیار کرنی چاہئے۔ دوسری طرف، چونکہ منفی، تخریبی اعمال عدم مسرت کا باعث ہوتے ہیں تو ہمیں جس قدر بھی ممکن ہو ان کو تلف کرنا چاہئے۔

پس مہاتما بدھ نے علت و معلول کا سبق سکھایا۔ ہماری قسمت ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، نہ مہاتما بدھ کے اور نہ ہی کسی اور کے ہاتھ میں۔ پس اصلی محفوظ راہ یا پناہ دھرم میں ہے، جسے ہم نے اپنے من کے سلسلوں پر استوار کرنا ہے۔ با الفاظ دیگر، اپنے من سے پریشان کن جذبات کو نکال کر ہم اپنے دکھ کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور خوشی پاتے ہیں۔

مزید برآں، اس دھرم جوہر کو اپنے من کے سلسلوں میں استوار کرنے کی خاطر ہمیں ایسے مددگار چاہئیں جو ہمارے لئے مثالیں قائم کر سکیں اور اس سلسلہ میں ہماری مدد کر سکیں۔ ایسے لوگوں کو سنگھا جوہر کہتے ہیں۔

تو مختصراً بات یہ ہے کہ مہاتما بدھ ہمیں زندگی میں محفوظ راہ دکھاتا ہے؛ دھرم حقیقی محفوظ راہ ہے؛ اور سنگھا جماعت مثال قائم کرتی ہے۔اس کے علاوہ اور کوئی شے ایسی نہیں جو ہمیں خوشی دے اور ہمارا دکھ درد دور کرے۔

عقل اور مشق پر مبنی بدھ مت

ہم مہاتما بدھ کی بات آنکھیں بند کر کے نہیں مان لیتے، ہم پہلے اس کی باتوں کو احتیاط سے پرکھتے ہیں۔ اگر وہ معقول ہوں تو ہم انہیں مانتے ہیں، اور اگر نہ ہوں تو نہیں مانتے۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس پنر جنم کے کئی منطقی استدلال موجود ہیں، اور اس بات کو ہم جانچ پڑتال کے بعد ہی مانتے ہیں۔ اگر کوئی بات منطق کی کسوٹی پر پوری اترے تو وہ قابل قبول ہو گی۔ لیکن اگر اس کی بنیاد محض اندھا ایمان ہو تو اس سے کام نہیں چلے گا۔ لہٰذا ایسے کبھی نہ کہو کہ "میرا ایمان ہے"۔ اصل بات عقل اور دلیل سے تجزیہ کرنا ہے۔ اگر کوئی بات عقل اور حقیقت کے مطابق نہ ہو، تو اسے مت مانو۔ ہمیں ہمیشہ دلیل کو اپنے اعتقادات کی بنیاد بنانا چاہئے۔

ماضی میں جب مہاتما بدھ نے درس دیا تو اس نے مکمل تعلیم دی۔ اب اس میں ردوبدل، اضافہ یا اصلاح کی گنجائش نہیں۔ اب صرف اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی پیچیدہ بات نہیں۔ ہم اسے طب کے حوالے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر مریضوں کا فرداً فرداً معائنہ کرتے ہیں اور پھر ہر مریض کی ضرورت کے مطابق نسخہ تجویز کرتے ہیں۔ اگر علاج کارگر نہ ہو تو کوئی احمق ہی یہ کہے گا کہ علمِ طب ناقص ہے۔ ایک باشعور انسان یہ محسوس کرے گا کہ یہ جو دوا نے کام نہیں کیا تو یہ طبیب کا قصور ہے نہ کہ علمِ طب کا۔ یہی بات بدھ مت پر بھی صادق ہے۔ 'تریپیتک' یا 'تین ٹوکریاں' جو کہ مہاتما بدھ کی براہ راست تعلیمات کی تحریریں ہیں میں کوئی خرابی نہیں۔ اگر ہم جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ذرائع و وسائل میں کوئی عدم تیقّن نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا ہمیں جو کرنا ہے وہ یہ ہے کہ جیسا ان مختلف تحریروں میں بیان ہے اس کے مطابق مشق کریں۔ آپ سمجھ گۓ نا؟

مہایان ترغیب کی توثیقِ مکرّر

پس بڑی مشق من کا سدھارنا ہے۔ اس کے لئے تعلیمات کو سننے کی ضرورت ہے، اور ایسا صحیح طرح سے کرنے کے لئے صحیح ترغیب کی ضرورت ہے۔ مہاتما بدھ نے دونوں یعنی ہنائن اور مہایان تعلیمات دیں۔ مہایان تعلیمات کا مرکزی پہلو دوسروں کی مدد کرنا ہے۔ ہنائن کا یہ کہنا ہے کہ اگرچہ ہم دوسروں کی مدد نہ بھی کر پائں، تو ہمیں کم از کم انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔ پس دونوں میں دوسروں کی مدد کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے ہمیں یہ سیکھنا ہے۔ اگر ہم دوستوں کی مدد کر سکتے ہیں تو ہمیں کرنی چاہئے، اور اگر ہم نہیں کر سکتے تو یقیناً ہمیں کبھی بھی انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہئے۔ اس میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ ہمیں کسی پر غصہ دکھانا چاہئے۔ ہے نا؟

مہایان تعلیمات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہمیں اپنی ذاتی اغراض کو پس پشت ڈال کر دوسروں کی خاطر کام کرنا چاہئے۔ یہ ہے بدھ متی پیغام، ہے نا؟ پس ہمارا دل صاف، گرم اور نرم ہونا چاہئے۔ پھر ہمیں ایک بودھی چت عزم بطور اپنی ترغیب کے متعیّن کرنا چاہئے۔ ہمارے بودھی چت عزم کا مقصد سب کو فائدہ پہنچانے کی خاطر روشن ضمیری حاصل کرنا ہے۔ اس ترغیب کے ساتھ اب ان سینتیس بودھی ستوا مشقوں کو سنئے جنہیں بودھی ستوا ٹوگمے-زنگپو نے رقم کیا ہے۔

تحریر کے مصنف کے نمایاں پہلو

توگمے-زنگپو بوتن رنپوچے کے دور میں گذرا جو کہ تسونگکھاپاسے دو نسلیں پہلے کا دور ہے۔ وہ ایک ساکیہ مسلک کا لاما تھا، اور بچپن سے ہی دوسروں کی مدد کرنے کا مشتاق تھا۔ اگر کوئی لوگ دوسروں کی مدد نہ کریں تو وہ بچپن میں ہی ان سے ناراضگی کا اظہار کرتا۔ آخرکار وہ ایک راہب بن گیا اور کئی مختلف لاما سے اس نے تعلیم حاصل کی جن میں دو خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس نے سوتر اور تنتر دونوں کی مشق کی اور ایک بڑا عالم فاضل اور باریاب عابد بنا۔

وہ خصوصاً اپنی بودھی چت کی فضیلت کے لئے مشہور تھا جسے اس نے اپنے آپ کو دوسروں سے مساوی اور متبادل کرنے کی تعلیمات سے پایا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم کسی بودھی ستوا کا تصور کریں تو فوراً توگمے-زنگپو کا نام ذہن میں آتا ہے، ہے نا؟ وہ ایک بہت عظیم انسان تھا، ایک خاص ہستی۔ جو کوئی بھی اس کا درس سننے آتا وہ بہت دھیما، خاموش اور مطمٔن ہو جاتا۔

اس نے ہماری مدد کی خاطر یہ جو سینتیس عبادات تحریر کی ہیں، تو ہمیں چاہئے کہ ہم بارہا ان کا بغور مطالعہ کریں۔ ہم اپنے آپ کو مہایان مسلک کے پیروکار مانتے ہیں، لیکن اگر ہم مہایان عبادات کا جائزہ نہ لیں تو اس سے کبھی بات نہیں بنے گی۔ لہٰذا ہمیں ان سینتیس تعلیمات کی روشنی میں اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہئے یہ جاننے کی خاطر کہ آیا ہمارے اعمال ان کے مطابق ہیں یا نہیں۔ ان میں ہمیں لوگوں کے لئے تین مختلف قسم کی ترغیب کی تعلیمات ملتی ہیں، جن کی وضاحت لم-رم کی بتدریج راہ میں کی گئی ہے۔

تحریر کا متن

اب میں اس تحریر پر مختصر تبصرہ پیش کروں گا۔ مجھے یہ ورثہ میں کونو لاما، تنزن-گیالتسن سے ملی ہے، اور اسے یہ پہلے دزاگچن رنپوچے سے ملی تھی جو صوبہ کھام میں تھا۔ یہ اس کا چھوٹا سا تاریخی پس منظر ہے جس کی یہ نقل میں لہاسا سے لایا تھا۔

یہ تعلیمات ان ذرائع سے ماخوذ ہیں۔ شانتی دیو کی 'بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا'، مائیتریا کی 'مہایان سوتر کی زردوزی' ، اور ناگارجنکی'قیمتی مالا'۔

یہ تصنیف تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے:

  • شروع میں، مثبت توانائی پیدا کرنا،
  • اصل تعلیمات،
  • اختتامیہ۔

شروع میں، توانائی پیدا کرنے کے دو حصے ہیں:

  • ابتدائی آداب و نیاز،
  • متحمّل ہونے کا وعدہ۔

ابتدائی آداب و نیاز

پہلی آئت ان دو حصوں میں سے پہلے کو پیش کرتی ہے، یعنی ابتدائی آداب و نیاز۔

لوکیشور کے آگے سرِتسلیم خم ہے۔
میں ہمیشہ احتراماً سجدہ کرتا ہوں، اپنے تین بابوں کے ذریعہ، مہان گرؤں کے آگے اور محافظ آوالوکیت-ایشور کو جو کہ، یہ جانکاری رکھتے ہوۓ کہ تمام مظاہر کا کوئی اول و آخر نہیں، اکیلے ہی بھٹکی ہوئی ہستیوں کے بھلے میں کوشاں رہتے ہیں۔

آوالوکیت-ایشور، جسے یہاں لوکیشور کہا گیا ہے، کے آگے سرِتسلیم خم ہے۔ روشن ضمیری کی بنیاد دردمندی ہے، اور چونکہ آوالوکیت-ایشور اس کا مجسم ہے، تو سجدہ اسی کے لئے ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے لئے مستقبل میں سنسکرت سیکھنے کی ترغیب پیدا کرنے کی خاطر مصنف اپنا نام سنسکرت میں لوکیشور بیان کرتا ہے۔ سجدہ آوالوکیت-ایشور کے لئے ہے جو گرؤں سے جدا نہیں ہو سکتا، اور یہ بدن، گفتار اور من کے تین راستوں سے کیا جاتا ہے۔ اس سجدے کی وجہ اس قابل تکریم ہستی کی عمدہ صفات ہیں۔

یہ عمدہ صفات کونسی ہیں؟ مہایان کی بنیاد بودھی چت ہدف ہے۔ یہ ایک ایسا من ہے جو روشن ضمیری حاصل کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ تمام محدود لوگوں کا بھلا کر سکے۔ ان مقاصد کی بارآوری کے لئے ہمیں چھ دور رس رویّے، چھ کمالات کی مشق کرنی چاہئے۔ اس کے نتیجہ میں ہم ایک ایسی روشن ضمیری حاصل کرتے ہیں جس میں مادی اور من کے پہلو شامل ہیں، یعنی تشکیل پایا ہوا شریر اور ایک دھرمکایا یا گہری آگہی یافتہ جسم جو ہر شے پر حاوی ہو، مہاتما بدھ کا سروشتہ من۔ ان دونوں کو پانے کی خاطر ہمیں وہ اسباب پیدا کرنا ہیں جو نتائج کی صنف کے ہوں۔ پس ہمیں مثبت توانائی کا ایک ایسا جال درکار ہے جس سے ہم مہاتما بدھ جیسے تشکیل شدہ اجسام اور گہری آگہی کے جال (حکمت کا مجموعہ) کے توسط سے مہاتما بدھ جیسا من حاصل کر سکیں۔ اس کی بنیاد دو سچائیوں پر ہے۔

لوکیشور ایسی ہستی ہے جو یہ جانتی ہے کہ تمام کے تمام مظاہر کا نہ کوئی اول ہے نہ آخر۔ جب ہم چیزوں کی مروّج حقیقت کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آنا جاناحقیقی ہے۔ لیکن اگر ہم ان کی حقیقت کا غائرانہ معائنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعمیر و تخریب مسلّم اور حقیقی وجود کی حامل نہیں۔ مثلاً ایک چیز ہے علّت و معلول۔ چونکہ علل کا کوئی فطری وجود نہیں – وہ فطری وجود سے عاری ہیں – لہٰذا ان کے اثرات بھی ویسے ہی کسی ایسے ناممکن وجود سے عاری ہیں۔ نہ ہی اسباب اور نہ ہی اثرات قائم بالذات ہیں؛ ان کا وجود قائم بالغیر ہے۔ باالفاظ دیگر،کُل مظاہر کی دست نگر فطرتِ نمو بطورغیر فطری وجود کے مقدم ہے۔

ناگارجن نے بتایا کہ چیزوں کی کوئی حقیقی آمد، رفت اور قیام وغیرہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ جملہ "یہ جانکاری رکھتے ہوۓ کہ مظاہر کا کوئی اول و آخر نہیں" سے مراد خالی پن ہے اور اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ مسجود ہستی ایک ایسی ہستی ہے جو خالی پن کا براہِ راست غیرتصوراتی ادراک رکھتی ہے۔ چونکہ ہر شے کی نمو دست نگر ہے، لہٰذا ہر شے فطری طور پر وجود سے عاری ہے۔ اور چونکہ کسی چیز کا کوئی فطری وجود نہیں، لہٰذا ہر چیز دست نگر نمو کی، بذریعہ علّت و معلول، مرہونِ منت ہے۔

پریشان کن جذبات اور رویّے بطور سبب کے، نتیجہ کے طور پر دکھ کا باعث ہوتے ہیں، اور تعمیری اعمال سے مسرت جنم لیتی ہے۔ چونکہ دکھ کا انحصار پریشان کن جذبات اور تخریبی اعمال پر ہے، اور یہاں مسجود ہستی یہ جانتی ہے کہ یہ صورت حال تمام ذی شعور ہستیوں پر منطبق ہے، تو اس کی درد مندی صرف اس امر پر مرتکز ہوتی ہے کہ انہیں ان کے دکھ درد سے نجات پانے کی راہ دکھلانے میں ان کی مدد کر سکے۔ لہٰذا یہاں حکمت اور طریقت دونوں کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ہمیں دونوں کی ضرورت ہے۔

اس حسب دلخواہ آئت کے آئنہ میں ہم دونوں اطراف کو دیکھ سکتے ہیں۔ لوکیشور کا کہنا ہے کہ کوئی شے بھی قائم بالذات نہیں، اور چونکہ ہر شے فطری وجود سے عاری ہے، پس تمام مظاہر اسباب و اثرات سے جنم لیتے ہیں۔ وہ اس بات کو خصوصاً سمجھتا ہے کہ تمام ہستیوں کے دکھ درد کی وجہ ان کے پریشان کن جذبات اور رویّے ہیں، اس لئے وہ پوری درد مندی کے ساتھ اس دکھ کو دور کرنے میں کوشاں ہے۔ لہٰذا حکمت اور طریقت کے دونوں پہلو یہاں لوکیشور کے حوالے سے تعریفی الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں۔ کیونکہ اسے ہر شے کے خالی پن کا احساس ہے، وہ ہر بات کو علت و معلول کے آئنہ میں دیکھتا ہے۔ لہٰذا اس کے دل میں سب کو دکھ سے نجات دلانے کا درد موجود ہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا؟

وعدۂترکیب

اگلی آئت وعدۂ ترکیب کے متعلق ہے۔

مکمل طور پر روشن ضمیر مہاتما بدھ، منفعت اور مسرت کے سرچشمے، جنہوں نے (اپنے تیٔں) مقدّس دھرم کی باریابی حاصل کی ہے۔ مزید یہ کہ اس کا انحصار (انکی) ان عبادات کی جانکاری پر ہے، میں ایک بودھی ستوا مشق کی وضاحت کروں گا۔

مہاتما بدھ نے پہلے روشن ضمیری حاصل کرنے کی خاطر ایک بودھی چت ہدف بنایاتا کہ سب کی مدد کرسکے۔ پھر جب ایک بار اس نے روشن ضمیری حاصل کر لی، تو اس کا واحد مقصد سب کا بھلا کرنا تھا۔ اس نے اپنے من کو سدھایا، اس احساس کے ساتھ کہ اسے سارے پریشان کن جذبات اور رویّوں کا خاتمہ کرنا ہے، اور سچی خوشی پانے کے لئے سب کو ایسا ہی کرنا لازم ہے۔ تو مہاتما بدھ نے اس کے کئی طریقے سکھاۓ، اور ہمیں خود ویسے ہی مشق کرنی ہے جیسے اس نے کی۔ اگر ہم اس کے بتاۓ ہوۓ طریقے پر چلیں تو ہم بھی مسرت پا لیں گے۔ اس لئے یہ آئت مہاتما بدھوں کو منفعت اور مسرت کے سرچشمے گردانتی ہے۔

مہاتما بدھ شروع سے ہی روشن ضمیر نہ تھا۔ اس نے اپنے گرؤں پر بھروسہ کیا، ان کی تعلیمات پر عمل کیا اور اپنے من کو سدھایا۔ اپنے پریشان کن جذبات اور رویّوں کو تلف کر کے وہ روشن ضمیر ہو گیا۔ پس اس نے یہ مقام مشق اور مقدّس دھرم کی باریابی سے حاصل کیا۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح بدن اور من دونوں کے مالک ہیں۔ جب ہماری آنکھ کوئی چیز دیکھتی ہے تو ہم یہ نہیں کہتے کہ میری آنکھ یہ دیکھتی ہے، بلکہ میں خود یہ دیکھتا ہوں۔ جب ہمارا بدن علیل ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ میں علیل ہوں۔ ان جملوں کی ایمائیت یہ ہوتی ہے کہ یا تو میں ایک من کی شعوری کیفیت ہوں یا ایک جسم۔ لیکن ہمارے اجسام ہماری ماں کی کوکھ میں جنم لیتے ہیں اور ہماری موت کے وقت فنا ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا"میں" محض ایک بدن نہیں ہوں۔

تو ممکن ہے کہ میں ایک من ہوں جو کہ جسم پر تکیہ کئیے ہوۓ ہے۔ بہر طور، "میں" کوئی شکل، صورت یا رنگ نہیں۔ پھر بھی جب ہم کچھ فاصلے پر کوئی گوشت پوست کا انسان دیکھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں،"وہ میرا دوست ہے" اور ہم بہت خوش ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس شخص کا جائزہ لیں تو اس کا وجود محض ایک جسم پر ہی مشتمل نہیں۔ مثال کے طور پر، جب ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، تو ڈاکٹر پوچھتا ہے،" کیا تمہارا شریر اچھا ہے؟"لیکن یہ بات عیاں ہے کہ ہم محض جسم ہی نہیں ہیں۔ امریکہ کے بعض مشہور ہسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کو صحت کی باریابی کے لئے مراقبہ تجویز کرتے ہیں۔ تو ایسا غیر طبعی علاج تجویز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ من اور شریر کے درمیان یقیناً کوئی رشتہ ہے۔

لیکن "میں" کے محض من ہونے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جب ہم کوئی بات جانتے ہیں ، یا کسی چیز کے متعلق واضح معلومات رکھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ "مجھے اس بات کا علم ہے"۔ لیکن من کے بارے میں جانکاری بہت مشکل کام ہے۔ اس کی تعریف محض تیقّن اور باخبری ہے۔ یہ کوئی شکل یا رنگ والی مادی شے نہیں۔ اگر ہم اس پر ذرا غور کریں تو یہ ایک صاف شفاف فضا کی مانند ہے، ایک ایسی خالی فضا جس میں سے تمام اشکال مٹ چکی ہیں، اور جس کے اندر کسی چیز کے بارے میں بھی شعور پیدا ہو سکتا ہے، یا اس خالی فضا میں بطور محض صاف شفاف پن اور باخبری کے ظاہر ہو سکتا ہے۔

من جو کہ بدنِ لطیف کی تشکیل کے بذریعہ حمل و بوقتِ حمل اس کے تمام لوازمات کے ساتھ نمو پاتا ہے، اس میں یہ شفاف پن اور باخبری کی صفات پائی جاتی ہیں۔ کسی ایسے مظہر کی نمو کے لئے، اسے اپنی فوری علّت کے طور پر، کسی ایسی شے کی ضرورت پڑتی ہے جو اسی کی صنف یا فطرت پر واقع ہو۔ پس کسی تصور کے بوقت تشکیل بطور اولین لمحۂ صراحت و آگہیکے،اس سے قبل ایک لمحۂ صراحت و آگہی کا وجود بطور علّت کے لازم ہے۔ یہی وہ منطقی انداز فکر ہے جس کے ذریعہ ہم گذشتہ جنموں کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔ اور اگر ماضی کے جنم وجود رکھتے ہیں تو پھر مستقبل میں بھی (موجود) ہوں گے۔

جیسا کہ ہماری یہ صراحت اور آگہی ایک جاری و ساری عنصر ہے جو کہ ہماری آئیندہ زندگیوں میں بھی موجود ہو گا ، تو اس پر پڑے ہوۓ ابہام اور پردوں کا اتلاف ضروری ہے جو کہ ہمارے پریشان کن جذبات اور آزار کا باعث ہیں۔ انہیں ہٹا دینے سے ہم شعور کی فطری سطح اور بنیاد تک رسائی کے قابل ہو جاتے ہیں جو کہ واضح تیقّن اور آگہی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو مہاتما بدھ کا سروشتہ من بن جاتی ہے، یعنی کہ ایک مکمل طور پر روشن ضمیر ہستی۔ پس ہمارے اور ایک روشن ضمیر ہستی کے منوں کی بنیاد، یا ایک سروشتہ من کی بنیاد، یہ سب ایک ہیں، اور یہ آخرالذکر من ایسا ہے جسے ہم بذات خود بلا شبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک مہاتما بدھ ازل سے ہی روشن ضمیر نہیں ہوتا؛ وہ کئی ایک علل پر اعتماد کر کے روشن ضمیر بنا۔ اس نے وہ سب ترک کیا جو ترک کرنا لازم تھا، اور وہ سب کچھ حاصل کیا جو حاصل کرنا لازم تھا۔ پس اگر ہم بھی ویسا ہی کریں تو ہمیں بھی وہ سب کچھ مل سکتا ہے۔

پس، یوں رقم ہے، " مکمل طور پر روشن ضمیر مہاتما بدھ ، منفعت اور مسرت کے سرچشمے، جنہوں نے مقدّس دھرم کی باریابی حاصل کی ہے۔" ہم یہ مقام خود اپنے لئے کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ اس میں لکھا ہے،" اس کا انحصار انکی ان عبادات کی جانکاری پر ہے۔" لہٰذا محض دھرم کا علم ہی کافی نہیں۔ اس پر عمل کرنا اور جب ہمیں ان عبادات کی جانکاری ہو جاۓ تو ان سے باریاب ہونا لازم ہے۔

میں آج کا درس یہاں ختم کرتا ہوں۔ کیا آپ کو سب سمجھ میں آیا؟ ہمیں جس قدر بھی ہو مشق کرنی چاہئے۔ ہمیں تیاگ، خالی پن اور بودھی چت کی مشق کرنی چاہئے۔ ہمیں پوری سنجیدگی اور ایمانداری سے اپنے مزاج، اپنے رحجانات اور ترغیبات کا جائزہ لینا چاہئے۔ اور پھر اس راہ پر چلنے کی مشق کرنی چاہئے جو ہمارے لئے موزوں ہو۔

Top