رشک: پریشان کن جذبات سے نبرد آزمائی

25:45
رشک کی کئی اقسام ہیں۔ یہ محض اوروں کی کامیابی کو برداشت نہ کرنے کی اہلیت ہو سکتی ہے، یا یہ تمنّا کہ یہ کامیابی ہمیں ملی ہوتی۔ ہم کسی دوسرے کے مال کو حرص کی نظر سے دیکھ کر یہ آرزو کرسکتے ہیں کہ کاش یہ ہمیں ملا ہوتا، حتیٰ کہ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ وہ اس سے محروم ہو جائں۔ اس میں مقابلہ کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے یا پھر اس قسم کی ثنویت کہ یا تو ہم مکمل طور پر خسارے میں ہیں یا ہھر دوسرا شخص مکمل طور پر نفع میں۔ ان تمام عناصر کا تجزیہ کرکے بدھ مت ان پریشان کن جذبات سے نجات کا عمدہ طریقہ بتاتا ہے۔

پریشان کن جذبہ

پریشان کن جذبات کا تجربہ ہم سب کو ہے۔ یہ وہ دماغی کیفیات ہیں جنہیں ہم بڑھا کر اپنے ذہنی سکون کے خاتمہ کا سبب بنا لیتے ہیں اور اپنی ذات پر اپنا اختیار کھودیتے ہیں۔ عام مثالیں ہیں: لالچ، دنیا سے لگاؤ، دشمنی، غصہ، اور حسد۔ یہ مختلف اقسام کی ذہنی حاجتوں (کرم) کو پیدا کرنے کے محرک ہوتے ہیں۔ عام طور پر وہ جو تخریبی رویوں کی طرف لے جارہے ہوتے ہیں۔ یہ حاجتیں ہوسکتا ہے دوسروں کے ساتھ تخریب کاری کی ہوں یا خود تخریبی جیسا کوئی عمل۔ نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ہم دوسروں کے لئے اورناگزیرطور پر خود اپنے لئے بھی مسائل اور مصیبتیں پیدا کرلیتے ہیں۔

پریشان کن جذبات کا ایک وسیع دائرہ ہے۔ ہر تہذیب عام جذباتی تجربات کے گرد کسی نہ کسی طرح کی کچھ فرضی حدود قائم کرلیتی ہے جن سے اس معاشرہ کے بیشتر افراد کا واسطہ پڑتا ہے، جو کچھ طے شدہ رویوں کے حوالہ سے فیصلہ صادر کرتی ہے، جن سے ان کی درجہ بندی کی وضاحت ہوتی ہے۔ اور پھر اس خاص قسم کو ایک نام دے دیتی ہے۔ یقیناً ہر تہذیب مختلف طرح کے عام جذباتی تجربات کا انتخاب کرتی ہے، ان کی وضاحت کے لئے مختلف امتیازی اوصاف بیان کرتی ہے، اور اس طرح پریشان کن جذبات کی مختلف اقسام طے کرلیتی ہے۔

مختلف تہذیبوں کی طرف سے مخصوص کردہ پریشان کن جذبات کی اقسام عام طور پر بالکل ملتی جلتی نہیں ہوتیں، کیونکہ جذبات کی تعریفیں (ہر معاشرے میں) ذرا مختلف ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر سنسکرت اور تبتی دونوں زبانوں میں "حسد" کے لئے ایک لفظ ہے(تبتی: فراگ-ڈاگ؛ سنسکرت: ارشیا) جبکہ اکثر مغربی زبانوں میں دو۔ انگریزی میں حسد اور رشک رائج ہیں جبکہ جرمن زبان میں "آئیفرسوخٹ" اور " نیڈ" ۔ انگریزی کی دونوں اصطلاحوں میں امتیاز بالکل ویسا ہی نہیں جیسا کہ جرمن کے دو لفظوں میں، اور سنسکرت اور تبتی کسی بھی زبان کی اصطلاحوں سے بالکل ہم آہنگ نہیں۔ اگر ہم مغرب والوں کی حیثیت سے اس عام قسم کے جذباتی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جو ہماری اپنی تہذیب اور زبانوں کی اقسام کے اصولوں کے طرز پر ڈھالی گئی ہیں، اور ہم ان پر قابو پانے کے لئے "بدھ مت" کے اصولوں کو سیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے جذبات کا تجزیہ کرنے اور انہیں از سرِ نو سمجھنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ ہم نے انہیں سوچ رکھا ہے، کہ یہ بدھ مت کی تعریف کے مطابق کئی پریشان کن جذبوں کا امتزاج ہیں۔

رشک کیا ہے

بدھ مت کے ابھیدھرم صحائف "رشک" کی درجہ بندی دشمنی کے ایک جزو کے طور پر کرتے ہیں۔ وہ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں "ایک پریشان کن جذبہ جو دوسرے لوگوں کی کامرانیوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے – جیسے کہ ان کی عمدہ صفات، مال و اسباب، یا کامیابی۔ اور ان کی کامرانیوں کو برداشت کرنے کی نا اہلی، جو ہمارے ذاتی مفاد اور جو عزت ہمیں ملتی ہے اس سےحد سے زیادہ لگاؤ کی وجہ سے ہے"۔

لگاؤ سے یہاں مراد ہے زندگی کے وہ پہلو جہاں دوسروں نے ہماری کامرانیوں سے بڑھ کر کامیابیاں حاصل کی ہوئی ہوں، اور ہم اس کے مثبت پہلووں پر مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ ہم اپنے من میں اسی پہلو کو سب سے زیادہ اہم بنالیتے ہیں اور اپنی ذات کی قدر و قیمت اسی حوالہ سے محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس میں حد سے زیادہ اپنی ذات (میں) سے لگاؤ پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس طرح ہم حاسد ہوتے ہیں، کیونکہ ہم "چسپاں ہوتے ہیں اپنے ذاتی مفاد یا عزت کے ساتھ جو ہم اس میدان میں حاصل کرتے ہیں"۔ یہاں اس حوالہ سے مثال کے طور پر ہم اپنی دولت اور حسن کے زعم کا شکار ہو سکتے ہیں۔ دشمنی کے ایک جزو کی حیثیت سے رشک اس الحاق میں جو دوسروں کی کامیابی کے حوالے سے ہے سخت رنجیدگی کا اضافہ کردیتا ہے۔ یہ اس کے برعکس ہے کہ دوسروں کی کامیابیوں پر مسرت کا اظہار کیا جائے۔

انگریزی میں رشک کے مختلف معانی میں سے ایک یہ بھی ہے "اس سے دشمنی جو (ہم سے) بہتر حالات سے ہمکنار ہے"۔ یہ بدھ مت کے مفہوم کا صرف ایک حصہ ہے، جو اس بات کو نظر انداز کرتا ہے کہ ہماری اس پہلو سے کس قدر وابستگی ہے جس کا دوسرے شخص کو سازگار موقع حاصل ہے۔ یہ تعریف صرف یہ اشارہ کرتی ہے کہ حالات واقعی سازگار ہیں یا نہیں، لیکن اس معاملہ کے اصل اہم پہلو یعنی "انا" سے بیحد لگاؤ پر سوال نہیں اٹھاتی۔

مزید برآں رشک، جس طرح بدھ مت میں بیان کیا گیا ہے، صرف جزئیات کو لیتا ہے، لیکن انگریزی لفظ اینوی کے تمام پہلووں کا احاطہ نہیں کرتا۔ جلن میں کچھ اور مفہوم بھی ہے۔ اس میں وہ بھی ہے جسے بدھ مت کہتا ہے "حرص"۔ حرص حد سے بڑھی ہوئی خواہش ہے کسی ایسی شے کی جو کسی دوسرے کے پاس ہو"۔ لہذا "جلن" کی انگریزی والی تعریف ہے "کسی کے سازگار حالات کی وجہ سے تکلیف دہ آزردگی اور ان حالات کو پانے کی خواہش"۔ دوسرے لفظوں میں، زندگی کے کسی خاص پہلو سے دوسروں کی کامرانیاں برداشت کرنے کی نا اہلی کے ساتھ، جیسا کہ بدھ مت اشارہ کرتا ہے، ہم اس کی اہمیت کو بہت بڑھا لیتے ہیں۔ جلن وہ حسرت ہے کہ کاش یہ کامرانیاں ہماری اپنی ہوتیں۔ ہم ہو سکتا ہے غریب ہوں یا اس حوالے سے محرومی کا شکار ہوں یا ہمارے پاس پہلے ہی کافی کچھ ہو یا بلکہ اوسط مقدار سے زیادہ ہی کچھ ہو۔ اگر ہم حاسد ہیں اور مزید کچھ اور کی طلب رکھتے ہیں، مزید اور چاہتے ہیں، تو ہماری طلب لالچ کی حد تک بڑھ چکی ہے۔ اکثر، اگرچہ ضروری نہیں، جلن اس خواہش کو اور شدید کردیتی ہے کہ دوسروں نے جو کچھ حاصل کررکھا ہے وہ ان سے چھن جائے، تو وہ پھر ان کے بجائے ہم حاصل کرسکیں۔ اس صورتِ حال میں ضرر رساں جذبہ کو پہلے سے بھی زیادہ مسالہ مل جاتا ہے۔

جلن، رشک اور حرص کی آمیزش کے طور پر مسابقت کی طرف لے جاتی ہے۔ لہذا ٹرنگپا رنپوچے رشک کو وہ پریشان کن جذبہ کہتا ہے جو ہمیں سخت مسابقت اور جنون کے ساتھ دوسروں سے اور خود سے بہتر کچھ کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ بھر پور عمل سے وابستہ ہے جسے نام نہاد "کرم کنبہ" کہتے ہیں۔ جو کچھ دوسروں کو حاصل ہے اس سے حاسد ہونا اور حاسدانہ طلبگار ہونے کے باعث ہم خود کو اور دوسروں کو زیادہ سے زیادہ کی کوشش کرنے کے لئے دھکیلتے ہیں، جیسے کہ انتہائی مسابقت تجارت اور کھیلوں میں پائی جاتی ہے۔ لٰہذا، بدھ مت جلن کو گھوڑے سے مثال دیتا ہے۔ جلن کی وجہ سے دوسرے گھوڑوں کے تقابل میں دوڑتا ہے۔ یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ دوسرے گھوڑے اس سے زیادہ تیز دوڑیں۔

رشک اور مسابقت

یہ سچ ہے کہ بدھ مت میں رشک کا مسابقت سے قریبی رشتہ ہے، اگرچہ پہلا دوسرے کی رہنمائی نہیں کرتا۔ ہوسکتا ہے کوئی دوسروں سے رشک کرتا ہو مگر ذات کے دھیمے بہاؤ کی وجہ سے مسابقت کی کوشش بھی نہ کرے۔ اس طرح سے مسابقت پسند ہونے کے لئے رشکضروری نہیں۔ کچھ لوگ کھیلوں میں سبقت لے جانا چاہتے ہیں، محض لطف کے لئے، خود اپنی ذات اور دوسروں کی صحبت سے خوش ہونے کے لئے، یا بس بنا سبب۔

بدھ مت رشک اور مسابقت کو مختلف انداز میں جوڑتا ہے۔ مثلاً شانتی دیو "بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا" میں اپنی گفتگو میں ان تینوں پہلووں پر روشنی ڈالتا ہے – اونچی حیثیت والوں سے رشک، برابر والوں سے مسابقت، اور اپنے سے کمتر لوگوں پر تفاخر۔ اس کے بیان کا محور تمام ذی حیات کو باہمی یکساں دیکھنا ہے۔

بدھ مت یہاں جس مسئلہ سے مخاطب ہے وہ یہ احساس ہے کہ "میں" اہم ہوں، جس کی تہہ میں تینوں پریشان کن جذبات میں سے سب موجود ہیں۔ مثلاً، اگر ہم سوچتے اور محسوس کرتے ہیں کہ صرف "میں" ہی کسی خاص کام کو اچھا اور صحیح طور پر کرسکتا ہوں، جیسے اپنے کسی دوست کو گاڑی چلانے کی تعلیم دینا۔ جب کوئی اور اسے سکھاتا ہے تو ہم حاسد ہوجاتے ہیں۔ جو ضروری نہیں کہ مسابقت کی طرف لے جائے۔ اگر دوسری طرف ہم سوچتے اور محسوس کرتے ہیں کہ "میں" ہی صرف ایک ہوں جو خاص کچھ کرنے کا حقدار ہے، جیسے زندگی میں آگے نکل جانا۔ اور ہم جلنے لگتے ہیں اگر کوئی اور کامیاب ہوجاتا ہے۔ ہم مقابلے پر اُتر آتے ہیں۔ ہمیں دوسرے شخص سے بہتر کارکردگی کرنی ہوتی ہے، اگرچہ ہم پہلے ہی اوسطاً کامیاب ہوں۔ ان دونوں مثالوں میں رشک اور جلن کی تہہ میں "میں" کا شدید ادراک اور اپنی ذات پر تمام توجہ مرکوز ہے۔ ہم دوسروں کے بارے میں اس طرح نہیں سوچتےجیسے اپنے بارے میں ۔ ہم خود کو خاص انسان سمجھتے ہیں۔

بدھ مت "میں" اور "تم" سے متعلق غلط توجیہات کا مداوا کرنے کے لئے رشک اور جلن، مسابقت، اور غرور کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل اور عدم مسرت کے علاج کی پیشکش کرتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر ایک کو یکساں دیکھنا چاہئے۔ ہر ایک یکساں صلاحیت رکھتا ہے۔ اس احساس کے تحت کہ ہر ایک فطرتاً مہاتما بدھ جیسا ہی ہے۔ ہر ایک خوش اور کامیاب ہونے کی یکساں خواہش رکھتا ہے۔ اور ناخوش یا ناکام نہیں ہونا چاہتا۔ اور ہرایک کو خوش ہونے اور کامیاب ہونے، ناخوش اور ناکام نہ ہونے کا یکساں حق حاصل ہے۔ ان معاملات میں "میں" کی کوئی اہمیت نہیں۔ بدھ مت محبت کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ ہر ایک کے لئے تمنا کہ سب ایک برابر خوش ہوں۔

مہاتما بدھ کی طرح جب ہم ہر ایک کو فطرتاً یکساں دیکھنا اور محبت کرنا سیکھنے لگیں، تب ہم میں یہ وسعت نظری پیدا ہوگی کہ ہم ان افراد سے اپنے تعلقات استوار کریں جو یا تو ہم سے زیادہ کامیاب ہوئے، یا وہاں کامیاب ہوئے جہاں ہم ناکام ہوئے۔ ہم ان کی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں، کیونکہ ہماری خواہش ہے کہ ہر ایک خوش رہے۔ ہم اپنے ہم پلہ لوگوں کی مدد کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ بھی آگے بڑھیں، بجائے اس کے کہ ان سے مسابقت کریں اور کوشش کریں کہ ان سے بہتر کر گذریں۔ ان کی طرف سے جو ہم سے کم کامیاب ہیں، ہم ان کی بہتر کارکردگی کے لئے مدد کی کوشش کریں، بجائےاس کے کہ اتراہٹ اور غرور کے ساتھ خود کو ان سے بہتر محسوس کریں۔

رشک اور مسابقت کا تہذیبی دباؤ

بدھ مت کے یہ ہدایتی اصول انتہائی ارتقائی ہیں اور خاص طور پر عمل کے لئے مشکل ہیں جبکہ ہمارے خودرو پیدا شدہ رشک اور مسابقت کو کچھ خاص مغربی تہذیبی قدروں نے توانا، مضبوط اور انعام یافتہ بھی کردیا ہے۔ آخرِ کار، تقریباً تمام بچے خود جیتنا چاہتے ہیں اور جب ہارتے ہیں تو روتے ہیں۔ لیکن اس پر مستزاد یہ کہ بہت سی مغربی تہذیبیں سرمایہ داری نظام کی تعلیم ایک فطرتاً بہترین جمہوری معاشرے کی طرز کے طور پر دیتے ہیں، جس کی تہہ میں وہی جہدِ بقائے موزوں ترین والا کلیہ کارفرما ہے جو مسابقت کو زندگی کے سفر کا بنیادی محرک قرار دیتا ہے بجائے محبت اور شفقت کے۔ مزید یہ کہ مغربی تہذیبیں شوق کی شدت کے ساتھ مسابقتی کھیلوں کے ذریعہ کامیابی اور جیت کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، اور وہ جس طرح بہترین کھلاڑیوں اور امیر ترین لوگوں کو دنیا بھر میں اجاگر کرتے ہیں۔

مزید، جمہوریت کا پورا سیاسی نظام اور انتخابات کا سلسلہ مسابقت پر قائم ہے۔ امیدوار کے طور پر خود کو پیش کرنا اور پھر بیچنا، عوام پر یہ مشتہر کرنا کہ ہم عہدہ کے لئے اپنے حریف کے مقابلہ میں کتنے بہتر ہیں۔ جیسا کہ عام طور پر مغرب میں کیا جاتا ہے۔ انتخابی مہم جوئی اس میں یہ اضافہ کرتی ہے کہ اپنے حریف امیدواروں کے ہر ممکنہ کمزور پہلو کو، ان کی ذاتی زندگیوں کی حد تک بھی ڈھونڈھ نکالنے کی پوری کوشش کرتی ہے اور وہ خود کو غیر متناسب حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور ان (دوسروں) کو وسیع عوامی سطح پر غیر مستحق مشتہر کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اس طرح کے رویوں کو بھی جو حسد اور مسابقت کی بنیاد پر قائم ہیں، منصفانہ اور قابلِ تعریف سمجھتے ہیں۔

دوسری طرف تبتی معاشرہ ہر اس شخص پر ناگواری سے بھنویں چڑھاتا ہے جو دوسروں کی ناقدری کرتا اور خود کو ان سے بہتر قرار دیتا ہے۔ یہ کردار کی منفی خصوصیات سمجھی جاتی ہیں۔ درحقیقت بودھی ستوا عہد و پیمان کی پہلی جڑ یہ ہے کہ ہم اپنی تعریف کبھی نہ کریں اور وہ لوگ جو نیچی حیثیت میں ہیں انہیں دوسروں کے مقابلے میں کم مایہ اور غیر اہم نہ سمجھیں۔ جس میں یہاں عام انتخابات کے ایسے اشتہاری الفاظ کو بھی شامل کیاجاسکتا ہے۔ اس کا مقصد مخاطب اشخاص سے منافعت، تعریف، محبت اور عزت وغیرہ حاصل کرنا اور ان اشخاص سے حسد ہے جنہیں کم مایہ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ صورتِ حال اس فرق کو مٹا دیتی ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ سچ ہے یا جھوٹ۔ برخلاف اس کے جب اپنے متعلق باتیں کریں، انتہائی انکسار کے ساتھ کہتے ہوئے " میں کوئی اعلیٰٖ خصوصیات کا حامل نہیں، میں کچھ نہیں جانتا" قابلِ تعریف سمجھاجاتا ہے۔ لہٰذا جمہوریت اور ووٹوں کے لئے انتخابی مہم جوئی کلیتہً غیر مانوس ہیں اور جیسا کہ عام مغربی طرز پر تبتی معاشرے میں لاگو کیا جائے تو کارآمد نہیں ہوتا۔

اگر صرف یہ کہاجائے کہ ہم کسی عہدہ کے لئے کھڑا ہونا چاہتے ہیں تو اسے غرور کا ایک مشکوک اشارہ اورایثار سے عاری فعل سمجھا جائے گا۔ امیدواروں کے نمائیندوں کے لئے صرف ایک ممکنہ مصالحت ہوسکتی ہے – اور وہ یہ کہ نامزدگان دوسروں کو بس اتنا ہی بتائیں جو حقیقت ہے۔ اور وہ یہ کہ نامزدگان دوسروں سے خود بھی اپنے امیدواروں کی اچھی صفات اور کامیابیاں حقیقت سے زیادہ بڑھا کر نہ بتائیں، اسی عہدہ کے لئے کھڑے ہونے والے اپنے حریفوں سے مقابلہ نہ کرتے ہوئے یا ان کے بارے میں کوئی بری بات کہے بغیر۔ یہ حالانکہ بمشکل ہی کبھی ہوا ہے۔ عام طور پر وہ امیدواران جو خاصے معروف ہیں، جیسا کہ اگر معزز خاندانوں والے یا تبتی بدھ مت کے پیدائشی پیشوا نامزد ہوتے ہیں، خواہ ان سے پوچھے بغیر ہی وہ کھڑے ہونا چاہتے ہیں۔ اگر وہ کہیں وہ کسی عہدہ کے لئے کھڑا ہونا نہیں چاہتے، یہ انکساری کی علامت سمجھاجاتا ہے، جبکہ فوراً ہاں کہنا غرور اور طاقت کے لالچ کو ظاہر کرتا ہے۔ کسی نامزد کے لئے یہ تقریباً ناممکن ہوتا ہے کہ انکار کرے۔ تب انتخابات بغیر مہم جوئی کے ہوجاتے ہیں۔ لوگ عام طور پر اس کو ووٹ دیتے ہیں جو سب سے زیادہ معروف ہوتا ہے۔

لہٰذا، بدھ متی اصول کے مطابق دوسروں کی کامیابی میں شریک ہونا – اور یہاں تک کہ دوسروں کو کامیاب کرنا اور اپنے لئے شکست تسلیم کرنا، مغربیوں کے لئے یہ حل آزمانا مناسب ترین نہیں ہوگا جو سرمایہ دارانہ نظام کی خوبیوں اور مغربی انتخابی مہم جوئی کے طریقہء کار کے سخت قائل ہیں۔ ہم مغربیوں کو چاہئے کہ خود بخود پیدا ہونے والی اقسام کی طرف متوجہ ہونے سے قبل اپنی موجودہ معاشرتی اقدار کا از سرِنو تخمینہ لگائیں اور ان اصولوں کی بنیاد سے پیدا ہونے والی طرزِ حسد اور مسابقت سے نبرد آزما ہوں جو ان اقدار کو قبول کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔

ایک مثال ہے جو ایک ہندوستانی بازار میں مغربی تہذیبی اقدار کی بنیاد پر قائم حسد اور مسابقت کا جائزہ لینے میں غالباً ہماری مدد کرے۔ ہندوستان میں کپڑوں، زیوروں، سبزیوں اور اسی طرح کے دوسرے بازار ہوتے ہیں۔ ہر ایک میں قطار در قطار ایک دوسرے کے برابر برابر دوکانیں اور چھوبڑے ہوتے ہیں اور سبھی بالکل یکساں چیزیں بیچ رہے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر دوکاندار ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور اکثر اپنی دوکانوں کے باہر ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ یہ ان کے کرم پر منحصر ہے کہ ان کی دوکان اچھی چلے یا نہ چلے۔

رشک کا مغربی مفہوم

بدھ مت میں رشک کے موضوع پر بحث جس پہلو پر توجہ مرکوز کرتی ہے، گرچہ اس پر جزوی طور پر منطبق نہیں ہوتی، وہ وہ پریشان کن احساس ہے جسے انگریزی میں "جلن" سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور یہ انگریزی میں ایک دوسرے مشابہ پریشان کن جذبہ کی تخصیص کرتی ہے جو رشک کہلاتا ہے۔ اکثر مغربیوں کے لئے اس قسم کا رشک انہیں اور بھی زیادہ تکلیف دیتا ہے نسبتاً اس قسم کے جس کی بدھ مت بات کرتا ہے۔

اس پر توجہ رکھنے کے بجائے کہ دوسرے شخص نے کیا حاصل کیا جو ہمارے پاس نہیں، اس قسم کا رشک اس پر توجہ دیتا ہے کہ کون ہمارے بجائے کسی اور کو کیا دے سکتا ہے۔ لہٰذا انگریزی میں رشک کی پہلی تعریف جو ہمیں لغت میں ملتی ہے "ایک ناقابلِ برداشت حریفانہ دشمنی یا بے یقینیت"۔ مثال کے طور پر ہم رشک کرنے لگتے ہیں اگر ہمارے والدین دوسرے مرد یا عورت کے ساتھ دل لگی کررہے ہوں یا دوسروں کے ساتھ بہت زیادہ وقت گذار رہے ہوں۔اگرچہ ایک کتا بھی اس قسم کے رشک کو محسوس کرتا ہے، جب کسی گھر میں نئے بچے کی آمد ہوتی ہے۔ لہٰذا بدھ مت کے مطابق رشک، ہتک اور دشمنی کے عناصر کا حامل ہے۔ لیکن یہ اپنے ساتھ عدم تحفظ اور بے اعتمادی کے عناصر بھی رکھتا ہے۔ اگر ہم غیر محفوظ ہیں تو جب ایک دوست یا شراکت دار کسی اور کے ساتھ ہوتا ہے، ہم حاسد ہوجاتے ہیں، اپنے لئے دوسرے شخص کی محبت کے حوالے سے غیر محفوظ، اور اس لئے ہم اپنے دوست پر اعتماد نہیں کرتے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ "میں" بے مصرف ہوجاوں گا۔

اس قسم کے رشک سے نبردآزما ہونے کے لئے ہمیں چاہئے کہ مساوات کا سبق سیکھیں۔ لیکن یہاں ہمارا مسئلہ تہذیبی اقدار کے اصولوں کی بنیاد پر قائم نہیں، یوں شائد براہ راست بدھ مت کے نظریہ سے استفادہ کی کوشش آسان ہے۔ دل ہر ایک سے محبت کا ظرف رکھتا ہے۔ یہ ایک پہلو ہے مہاتما بدھ کی فطرت کا۔ اس حقیقت کا بارِ دگر طے ہوجانا رشک پر قابو پالینے کا ایک طریقہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارے احباب اور محبوب سمیت ہر شخص کا دل وہی ظرف رکھتا ہے۔ اگر وہ اتنے محبوس ہیں کہ ان کے دلوں میں میرے لئے کوئی جگہ نہیں تو ہم ان کے لئے درد مندی پیدا کرسکتے ہیں۔ وہ خود میں مہاتما بدھ کی فطرت کے ظرف کو نہیں پہنچ پارہے ہیں اور نتیجتاً خود کو زندگی کی سب سے بڑی مسرتوں سے محروم کررہے ہیں۔

ہمیں ضرورت ہے کہ خود کو دوسروں کے لئے کشادہی کریں۔ کھلے دلوں کے ساتھ، ہم سب سے محبت رکھ سکتے ہیں دوست، شراکت دار، بچے، پالتو جانور، والدین، ملک، اپنے لوگ، فطرت، خدا، مشغلہ، کام وغیرہ سبھی سے۔ ہمارے دلوں میں ان سب سے محبت کے لئے گنجائش ہے۔ محبت مخصوص و محدود نہیں ہے۔ ہم اپنی محبت اور اس سے وابستہ احساسات کا مناسب طریقہ سے اظہار کرتے ہوئے تمام معاملات سے نبردآزما ہونے کے بالکل اچھی طرح اہل ہیں۔ ہم اپنی محبت اور شفقت اپنے کتوں پر اس طرح ظاہر نہیں کرتے جس طرح ہم اپنی بیویوں یا شوہروں پر ظاہر کرتے ہیں، یا اپنے والدین پر۔ ہم ان سب کے ساتھ جنسی تعلقات نہیں رکھتے۔

وحدتِ زوجیت اور جنسی بے وفائی کے مسائل انتہائی پیچیدہ ہیں اور بہت سے دیگر مسائل پیدا کرتے ہیں۔ وہ یہاں کے موضوعات نہیں۔ کسی بھی حالت میں ہمارے جنسی شراکت دار، خصوصاً ہمارے منکوحہ ازواج جبکہ خصوصاً ہمارے ساتھ نو عمر بچے بھی ہوں، اگر نا قابلِ اعتبار ہوں اور بہت سارا وقت دوسروں کے ساتھ گذارتے ہوں تو رشک، کبیدہ خاطری اور احساسِ ملکیت کبھی بھی مددگار جذباتی رد عمل نہیں ہوتے۔ ہمیں ان حالات کے ساتھ پروقار طریقہ سے نبردآزمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ساتھیوں پر چیخنےیا انہیں احساسِ ندامت میں مبتلا کرنے سے بمشکل ہی کبھی انہیں خود سے محبت کروانے میں کامیابی ہوسکتی ہے۔

نیز یہ پریشان کن جذباتی ردعمل، تہذیبی اثرات کا حصہ ہے۔ مثال کے طور پر، ایک روایتی جاپانی یا ہندوستانی بیوی اپنے شوہر سے یہ توقع نہیں رکھتی کہ وہ کام کے بعد اپنا سماجی وقت اس کے ساتھ گذارے، بجائے اس کے کہ وہ اپنے معاشرے کے مطابق عمل کرے اور اپنے مرد دوستوں کے ساتھ باہر گھومے پھرے۔ لہٰذا اکثر صورتحال میں، وہ (بیوی) اپنی سماجی زندگی اپنی سہیلیوں کے ساتھ بسر کرنے میں مطمئن ہوگی، اس سے الگ جو اس کے شوہر کی ہے۔

بعد ازاں، جب ہم سوچتےہیں کہ محبت اور ایک قریبی رشتہ کسی ایک مخصوص شخص کے ساتھ ہی رکھاجاسکتا ہے، اور اگر اس کی دوستی کسی اور سے ہوتو پھر وہاں "میرے" لئے کوئی گنجائش نہیں۔ یہ رشک ہے۔ یہ اس ٹھوس "میں" کے احساس کی بنیاد پر ہے جو بہت اہم لگتی ہے، اور ایک ٹھوس "تم" جو اتنا خاص ہے کہ ہم صرف اس شخص کی محبت چاہتے ہیں۔ اگرچہ اوربھی بہت (لوگ) ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہیں اور جن سے ہم محبت کرتے ہیں، ہم اس حقیقت کو نظرانداز کردینے پر مائل ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں "اس کی کوئی اہمیت نہیں"۔

مسلسل اپنے دلوں کو جہاں تک ممکن ہو دوسروں پر کشادہ کرتے جانا اور اس محبت کومحسوس کرنا جو احباب، رشتہ دار، پالتوجانور، اور اسی طرح اور دوسروں کے دلوں میں ہمارے لئے آج بھی ہے، ماضی میں بھی تھی اور مستقبل میں بھی ہوگی، جذباتی تحفظ کے احساس میں ہماری مدد کرتا ہے۔ یہ ہماری مدد اس لئے کرتا ہے کہ ہم اس جکڑ بندی پر قابو پاسکیں جس کی وجہ یہ ہو کہ اگر ہم نے اپنی ذات سے بھی بڑھ کر کسی اور کو محبت کی ایک خاص علامت بنا رکھا ہو۔

علمِ کلی اور سب سے محبت، دونوں کا اشارہ ہے کہ ہر ایک کو اپنے من اور دل میں رکھا جائے۔ کم سے کم، جب مہاتما بدھ پر توجہ مرکوز ہو یا وہ کسی شخص کے ساتھ ہو اور اس کا سو فیصد دھیان اس شخص پر لگا ہو۔ اس لئے ہر ایک سے محبت رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک فرد کی محبت کم ہوگئی ہے۔ اس لئے ہمیں اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ اگر ہم بہت سے لوگوں کے لئے اپنا دل کشادہ کریں تو ہمارے ذاتی رشتوں کی شدت اور سیرابی کم ہوجائے گی۔ یوں کسی ایک پر مکمل تشفی کے لئے ہماری گرفت اور انحصار کم ہوسکتا ہے، اور ہم ہر فرد کے ساتھ کم وقت صرف کرسکتے ہوے بھی اسے پوری طرح شریک رکھ سکتے ہیں۔یہی بات ہمارے لئے دوسروں کی محبت کے حوالہ سےبھی سچ ہے، جب ہم حاسد ہوتے ہیں تو یہ محبت کمزور ہوجاتی ہے کیونکہ وہ بھی کسی اور سے محبت کرتے ہیں۔

نیز، یہ ایک غیر حقیقی توقع ہے کہ کوئی ایک شخص ہمارا خاص دوست جوڑ ہوگا، جیسے ہمارا "نصف دیگر" جو ہماری ہر طرح سے تکمیل کرے گا اور جس کے ساتھ ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو کو بانٹ سکیں گے۔ ایسی توقع افلاطون کے بتاۓ ہوۓ اس قدیم یونانی تخیل کی بنیاد پر ہے کہ ہم سب اصلیتاً پورے ایک تھے، جو پھر دو میں بٹ گئے۔ کہیں نہ کہیں دور کہیں ہمارا نصف دیگر ہے۔ اور تب ہی سچی محبت ہوتی ہے جب ہم اپنے نصف دیگر کو ڈھونڈھ لیتے اور اس کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ یہ تخیل مغربی رومانیت کی بنیاد بن چکا ہے مگریہ حقیقت پر مبنی نہیں۔ اس پر یقین کرنا ایسا ہے جیسے یہ یقین کیا جاے کہ ایک خوبصورت شہزادہ سفید گھوڑے پرسوار ہمیں بچانےآۓ گا، جو کہ ایک خاص اپنایا ہوا تہذیبی عنصر ہے۔

رشک اور جلن کے زیرانداز فریبی مظاہر

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، رشک کسی دوسرے کی اس کامیابی کو برداشت کرنے کی نا اہلی ہے جو کسی ایسے پہلو سے ہو جس کی اہمیت کو ہم نے بہت بڑھا لیا ہو، مثال کے طور پر کسی کی مالی کامیابی۔ اس سے رشک کرنے والے ہم چاہتے ہیں کہ اس کے بجاۓ ہم یہ حاصل کرتے۔ ہم نے اس کا مختلف رنگ بھی دیکھا ہے جو تب ظاہر ہوتا ہے جب کسی کو کسی سے کچھ ملتا ہے، مثلاً محبت یا شفقت۔ ہمیں حسرت ہوتی ہے کہ یہ اس کے بجاۓ ہمیں ملی ہوتا۔

یہ پریشان کن جذبہ دو فریبی مظاہر سے پیدا ہوتا ہے۔ مغالطے کی وجہ سے اور محض لاعلمی کہ چیزیں کس طرح ہوتی ہیں، ہمارے اذہان کس طرح (خیالات) پیدا کرتے اور پھیلا لیتے ہیں۔ پہلا دوئی پر مشتمل مظہر ہے جو (۱) ایک بظاہر ٹھوس "میں" جو قدرتی طور پر کچھ حاصل کرنے یا پالینے کی مستحق ہے لیکن ایسا نہیں کرسکی، اور (۲) ایک بظاہرٹھوس"تو" جو قدرتی طور پر اس کا حقدار نہیں۔ غیر شعوری طور پر ہم محسوس کرتے ہیں کہ دنیا ہماری مقروض ہے۔ اور یہ ناانصافی ہے کہ الٹے دوسروں کو یہ مل جاۓ۔ ہم دنیا کو دو ٹھوس اقسام میں تقسیم کرتے ہیں: "زیاں رسیدہ" اور "فتحمند"۔ اور تصور کرتے ہیں کہ یہ لوگ حقیقتاً موجود ہیں اور بظاہر ٹھوس سچائی پر مبنی نظر آنے والی ان اقسام کے ڈبوں میں پاۓ جاتے ہیں۔ تب ہم خود کومستقل "زیاں رسیدہ" کی نوع میں ڈالتے ہیں، اور غالباً دوسروں کو "فتح مندوں" کے خانے میں، سوا ئے خود کے۔ یوں نہ صرف ہم ہتک محسوس کرتے ہیں بلکہ خود کو بدبخت بھی جانتے ہیں۔جو "بیچارہ/بیچاری میں" کے تکلیف دہ خیال سے وابستگی کی طرف لے جاتا ہے۔

رویوں کے عمل اور ردِ عمل سے لاعلمی عموماً رشک اور جلن کو جنم دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم یہ بات نہیں سمجھتے بلکہ اس سے انکار کرتے ہیں کہ وہ شخص جسے ترقی یا شفقت ملی ہے،اس نے اسے حاصل کرنے کے لئے کچھ کیا ہے۔ مزید برآں، ہم محسوس کرتے ہیں کہ کچھ کئے بغیر ہی یہ ہمیں مل جانا چاہئے تھا۔ الٹ پلٹ کے ہم یہی محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے تو بہت کچھ کیا مگر پھر بھی صلہ نہیں پایا۔ ہمارے اذہان ایک ضمنی فریبی ہیولہ پیدا کر لیتے ہیں اور اس کو پھیلا لیتے ہیں۔ ہمارے دھندلے اذہان چیزوں کو بالکل بلاوجہ ہی پیدا کرلیتے ہیں کہ ایسا ہوجائے، یا پھر محض اس بنا پر: جو ہم نے خود کیا (سوچا)۔

فریبی ہیولوں کی تعبیرِ نو

ہمیں ان دو فریبی ہیولوں کو نئے مفہوم دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری تہذیبوں نے ہوسکتا ہے ہمیں سکھایا ہو کہ ذی حیات مخلوقات کا اس دنیا کو چلانے کا قدرتی نظام مسابقت ہے۔ جیت کی طلب، مناسب ترین کی کامیاب جہدِ بقا۔ لیکن یہ توجیہات ہوسکتا ہے سچ نہ ہوں۔ تاہم اسے قبوٖل کرنے کی صورت میں ہم یقین کرتے ہیں کہ دنیا فطری طور پر "کامیاب" اور "ناکام" کی قطعی مختلف اقسام کے دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ نتیجتاً ہم طے شدہ نظریہ سے فتح مندوں اور زیاں کاروں میں منقسم دنیا دیکھتے ہیں۔ یقیناً خود کو بھی اسی نظریہ کے دائرہ کار میں دیکھتے ہیں۔

ہو سکتا ہے یہ فتح مندوں، زیاں کاروں کے نظریے اور مسابقت ارتقاۓ حیات کی وضاحت میں کارآمد ہوں، ہمیں ضرورت ہے اس حقیقت کو سمجھنے کی کہ وہ صرف ذہنی انتشار کی تعمیر ہے۔ "کامیاب" اور "ناکام" صرف خیالی عنوانات ہیں۔ یہ آسان خیال خامے مخصوص واقعات کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، مثلاً دوڑ میں اوّل آنے، ملازمت میں ترقی جو کہیں کسی اور کو نہ مل جاۓ، یا ایک گاہک سے محروم ہونا، یا ایک طالبعلم کا کسی دوسرے کے پاس چلے جانا۔ بس یہ کہ ہم بہ آسانی لوگوں کو "عمدہ اشخاص" اور "غیر عمدہ اشخاص " کے طبقوں میں تقسیم کرسکتے ہیں اس لحاظ سے کہ "عمدہ" سے ہماری کیا مراد ہے۔

جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ دوئی محض ہماری ذہنی اختراع ہے تو ہم اس حقیقت کو سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ "میں" اور "تم" کے ساتھ فطرتاً ایسا کچھ نہیں ہے جو ٹھوس خانوں میں مقفل ہو۔ ہم بنیادی طور پر ناکام نہیں۔ فطرتاً اور (دانستہ طور پر) جیسا کہ ہم اپنے بارے میں سوچتے ہیں کہ ہم زیاں رسیدہ ہیں، ہم نے آخرِ کار یہ سچائی تلاش کرلی ہے کہ درحقیقت"میں" ایک زیاں رسیدہ ہوں۔ بیچارہ/بیچاری "میں"۔ حالانکہ ہم بہت سی دوسری خوبیوں کے مالک ہیں۔ کسی کے حق میں ایک گاہک کھودینے پر رونا پیٹنا، آخر کیوں؟جیسے وہی حقیقی "میں" تھا/تھی۔

مزید برآں، اس کی وجہ ہمارے محدود اذہان اور ہماری پہلے سے بنی ہوئی سوچ کہ "بیچارا/بیچاری میں" اور "تم ذلیل، تم" جو ایسا لگتا ہے کہ کامیابی اور ناکامی، نفع اور نقصان، سب کچھ بالکل بلا جواز ہے، یا غیر متعلقہ وجوہات پر مبنی ہے۔ اس وجہ سے ہم سوچتے ہیں کہ جو ہمارے ساتھ ہوا وہ غیر منصفانہ تھا۔ حالانکہ کائنات میں جو ہوتا ہے وہ علت و معلول کے ایک بہت بڑے نظام کا طابع ہے۔ یوں جو ہمارے اور دوسروں کے ساتھ ہورہا ہے اس سے بہت سی چیزیں متاثر ہیں، یہ ہمارے تصور کے بس سے باہر ہے کہ ہم تمام عناصر کا احاطہ کرسکیں۔

جب ہم ان دو فریبی مظاہر کی تعبیرِ نو کرتے ہیں (کامیاب اور ناکام، اور چیزیں جن کا کوئی جواز نہیں) اور انہیں بڑھنے سے روکتے ہیں تو ہم ناانصافی سے متعلق اپنے احساسات کو پرسکون کرلیتے ہیں۔ اپنے رشک کی وجہ سے محض یہ احساس ہے کہ کیا پایا ہے، کیا ہورہا ہے۔ ہم نے ایک گاہک کسی اور کے حق میں گنوادیا اور اب وہ گاہک کسی اور کے پاس ہے۔ یہ اس ہدف سے باخبرکردیتا ہے جو حاصل کرنا ہے۔ اگر ہم کسی اور کے اسے حاصل کرنے پر رشک نہ کریں، تو شائد ہم سیکھ سکیں کہ کوئی شخص کیسے خاص کچھ کر پاتا ہے۔ یہ ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم کیسے کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم دوئی اور ٹھوس شناختوں کے وجود کے احساس کی وجہ سے حسد محسوس کرتے ہیں۔

خلاصہ

لہٰذا بدھ مت کئی مختلف طریقوں کی پیشکش کرتا ہے جن کے ذریعہ رشک اور جلن کے پریشان کن جذبات سے نبردآزما ہواجاسکتا ہے، خواہ ہم انہیں بدھ مت کے طریقے سے سمجھیں یا مغربی طریقے سے لیں۔ جب ہم ان عام قسم کے پریشان کن جذبات کی وجہ سے مشکل میں ہوتے ہیں تو اصل مسئلہ طے شدہ رویوں اور ہمارے تہذیبی پس منظر کی درست شناخت کا ہوتا ہے۔ جب ہم مراقبہ کی مشق کے ذریعہ کئی طرح کے طریقوں سے اپنی تربیت کرلیتے ہیں تو ہم اپنی مدد کے لئے کسی ایک مناسب طریقہ کا انتخاب کرسکتے ہیں ، جس کے ذریعہ جذباتی مشکلات میں سے کسی پر کام کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اس سے دوچار ہیں۔

Top