بدھ مت اور تصوّف کے درمیان رشتہ

عالمی تہذیب و تمدن اور ہمہ گیر ذمہ داری کا انحصار دنیا کے بڑے مذاہب جیسے بدھ مت اور اسلام کے درمیان مکالمہ پر ہے۔ یہ گفت و شنید مذہبی راہنماؤں کے درمیان بھی ہو سکتی ہے اور عوامی سطح پر بھی۔ علاوہ از ایں، اس کے موضوعات عمومی بھی ہو سکتے ہیں اور مستند خصوصی تفصیل کے حامل موضوعات بھی۔

ماضی میں بدھ مت اور اسلام کے راہنما اور پیرو کار بڑی حد تک ایک دوسرے کے نظریات سے نابلد رہے ہیں۔ اب یہ صورت حال دھیرے دھیرے بدل رہی ہے، مگر اس کے لئیے مزید جد و جہد کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں، معلومات کی افزائش اور مکالمہ کے مواقع بڑھانے میں انٹرنیٹ اہم کردار ادا کر رہا ہے، خاص طور پر عوام کے درمیان اور بالخصوص نوجوان طبقہ کے ہاں۔ انٹرنیٹ کے صارفین کو معلومات کے بڑے ذخائر جس میں بیشتر اوقات متضاد مواد پایا جاتا ہے کو چھاننے، کھنگالنے کا دشوار مرحلہ درپیش ہے تا کہ معتبر اور غیر متعصّب ذرائع کی نشاندہی کی جا سکے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئیے، تصوف اور بدھ مت کے درمیان متماثل خاکے عمومی معاملات میں درست سمت کی جانب اشارہ کرتے ہیں، لیکن خاص خاص معاملات میں مزید تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تا کہ غلط فہمی سے بچا جا سکے۔ 

مثال کے طور پر، وسط ایشیا میں بدھ مت اور اسلامی تہذیبوں کے مابین ایک ہزار سال سے اوپر عرصہ سے باہمی روابط رہے ہیں، اور اس دوران، تصوّف کی نشوو نما ہوئی ہے اور یہ اسلامی دنیا میں پھیلا ہے۔ یہ امر کہ انسانی کمزوریوں سے نمٹنے کے سلسلہ میں بدھ مت اور تصوف کو ایک جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ ان مسائل کے حل تلاش کرنے میں ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوا۔ لیکن اس سے اس بات کا امکان بھی متاثر نہیں ہوتا کہ کسی ایک مذہب نے دوسرے سے بعض نظریات مستعار لئیے ہوں۔ مگر اس قسم کے مستعار دعووں کا نہائت احتیاط سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے تا کہ ان کی صحت کا تعیّن کیا جا سکے۔ کیونکہ، بہر حال، بدھ مت اور تصوّف دونوں کی تاریخ بھی پرانی ہے اور جغرافیائی پھیلاؤ بھی وسیع تر ہے، اور نظریات اور علماء میں بھی بہت تنوّع پایا جاتا ہے جہاں ہر فکر کے اپنے منفرد نظریات ہیں۔ 

مثال کے طور پر، ابو یزید بستامی (۸۰۴ – ۸۷۴ صدی عیسوی) نے اپنے استاد ابو علی السندی کے حوالے سے تصوف میں 'فنا' اور 'خود'ا' کے نظریات متعارف کئیے۔ 'فنا' سے مراد وجود کا خاتمہ ہے – یعنی فرد کی خودی کا ذات باری(ﷲ) میں مکمل حلول؛ 'خود'ا' سے مراد دھوکہ یا شعبدہ ہے، یعنی یہ مادی دنیا کی طرف اشارہ ہے۔ ہندو اور مسلم تصوف میں، ر۔ س۔ زیہنر نے مدلل انداز سے یہ بات کہی ہے کہ السندی، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے کسی اور مذہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا، نے غالباً پہلا نظریہ 'چندوگیا اپنشاد' سے لیا اور دوسرا 'سوتاشوتر اپنشاد' سے، جس کی توضیح آدویتا ودانتا کے بانی شنکر (۷۸۸-۸۲۰ صدی عیسوی) نے کی۔ بدھ مت کے تمام روپ اس سے متماثل موضوع 'نروان' کو مانتے ہیں – پنر جنم سے چھٹکارا – اور بہت سے مہایان مدارس کا یہ ماننا ہے کہ موجودات بظاہر ایک جیسی ہیں، اگرچہ 'مایا' یعنی فریب نظر کے برابر نہیں ہیں۔ بہر حال، اس بات کا امکان کم ہے کہ ان کے نظریات کا صوفی نظریات کی تشکیل پر کوئی اثر ہوا ہو گا۔

دوسری طرف، بدھ مت سے مستعار کیا گیا ادبی مواد تصوف میں ملتا ہے۔ مثلاً، بدھ مت کے اس خاکہ کا ذکر جس میں نا بیناؤں کا ایک گروہ ہاتھی کو اس کے مختلف حصوں کو چھو کر الگ الگ بیان کرتا ہے، ایرانی عالم دین ابو حمید الغزالی (۱۰۵۸ – ۱۱۱۱ صدی عیسوی) کی تصنیفات میں ملتا ہے۔ فلسفیانہ تشکیک کی حمائت کرتے ہوۓ الغزالی نے اس تصویر کے توسط سے  یہ دکھانے کی کوشش کی کہ اسلامی علماء دین حقیقت کے متعلق محض جزوی علم رکھتے ہیں، جبکہ مہاتما بدھ نے اسے 'غیر بودھی فرقوں کے ستا' (پالی: ٹِتھا ستا) میں استعمال کیا جس کا مقصد غیر بودھی فلاسفہ کے باہمی محاکات کی عدم افادیت کو ظاہر کرنا تھا۔ 

تصوف پر دیگر بودھی اثرات خصوصاً ایران پر الخان سلطنت (۱۲۵۶-۱۳۳۶) کے دوران رسوم کی ادائیگی میں وقوع پذیر ہوۓ۔ چھ الخان حکمرانوں میں سے پانچ، سواۓ احمد تگودر (دور حکومت ۱۲۸۲-۱۲۸۴صدی عیسوی) کے تبتی بدھ مت کے پیروکار تھے۔ چھٹا الخان حکمران، غزن (دور حکومت ۱۲۹۵-۱۳۰۴ صدی عیسوی)، نے شیعہ عالم صدرالدین ابراہیم کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ تب سے بعد صوفی اولیا کرام کے مزاروں کی حرمت کا سلسلہ غالباً بدھ مت کے قدیم یاد گار ستوپا کی حرمت کے رواج کا مرہونِ منت ہے۔

بدھ مت کے نظریات کا دخول محض تصوف کے شعبہ تک ہی محدود نہیں رہا۔ اس سلسلہ میں مانویت نے، جو کہ بذات خود وسط ایشیا کا ایک بڑا مذہب رہا ہے، ایک وسیلے کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کا ایک ممکنہ ذکر مہاتما بدھ کی گزشتہ زندگیاں بطور ایک بودھی ستوا کے ہے جس کا بیان قرون وسطیٰ کے حوالوں میں بطور برلام اور جوسفیٹ کے ملتا ہے۔ یہ امر معتبر ہے کہ ان واقعات کے مانوی سوگدی بیان کی تصنیف جو بغداد میں ابان اللہیکی (۷۵۰-۸۱۵ صدی عیسوی) کی عربی کتاب 'بلاور اور یودسف' کی پہلی اشاعت کی شکل میں تھی سے قبل ہوئی۔ اس اسلامی کتاب میں مہاتما بدھ کی گزشتہ زندگیوں کاعربی میں رقم ذکر شامل ہے۔ 'بدھا کی کتاب' (عربی کتاب البدھ)، جو اس وقت لکھی گئی، یہ سنسکرت کی دو کتابوں کے عربی ترجمہ پر مشتمل تھی، 'گزشتہ زندگیوں کے بیان کی تسبیح' (سنسکرت: جتاکمال) اور اشوا گھوش کی کتاب 'مہاتما بدھ کے کارنامے' (سنسکرت: بدھ کرت)۔ چونکہ اب اللہیکی کی تصنیف دستیاب نہیں اس لئیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اس نے کس قدر مواد مانوی وسیلوں سے حاصل کر کے اپنی کتاب میں شامل کیا۔ اور اگر کچھ تھا تو یہ عباسی خلیفہ کے دربار میں بودھی اور مسلم مانوی علما کے درمیان مباحثہ سے ماخوذ ہو گا۔

علاوہ ازیں، مسلمان تہذیب پر بدھ مت کے اثرات مذہبی اور ادبی معاملات تک محدود نہیں تھے۔ طب کے میدان میں بھی یہ واقعہ پیش آیا۔ اس سلسلہ میں برمکید خاندان نے اہم کردار ادا کیا۔ چوتھے عباسی خلیفہ ہارون الرشید (دور حکومت ۷۸۶-۸۰۹ صدی عیسوی) کے عہد حکومت میں یحیٰ ابن برمک اس کا وزیر اعظم تھا جو کہ بلخ، افغانستان میں ناوا وہار آشرم کے ایک بدھ منتظم کا مسلمان پوتا تھا۔ اگرچہ اس وقت بدھ علماء بغداد کے مکتبۂ دانش میں پہلے سے موجود تھے، پھر بھی یحیٰ نے مزید بدھ علماء کو، خصوصاً کشمیر سے، آنے کی دعوت دی۔ البتہ یحیٰ کے دور میں کسی بھی بودھی فلسفہ کی کتاب کا عربی میں ترجمہ نہیں ہوا۔ اس کی بجاۓ سنسکرت سے عربی میں ترجمہ پر زور تھا، بودھی طبی کتب، خصوصاً روی گپتا کی 'بحر کمالات' (سنسکرت: سدھاسار)۔

مذہبی، ادبی اور سائینسی اثرات سے کہیں زیادہ اہم ایسی مشترک اخلاقیات کا شعبہ ہے جس پر عالمگیر تہذیب و تمدن اور ذمہ داری کی بنیاد قائم کی جا سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر سوڈان، پاکستان، ایران اور سعودی عرب نے انسانی حقوق کی عالمی قرارداد کو مسترد کیا ہے، جس پر ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ میں دستخط ہوۓ، اس بنا پر کہ اس میں غیر مغربی ادیان اور ثقافتوں کی اقدار کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ ان کے اعتراضات کے نتیجہ میں "اسلام میں انسانی حقوق کی قاہرہ قرارداد" معرض وجود میں آئی، جسے ۱۹۹۰ میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے اجلاس میں ۴۸ اسلامی ممالک کے وزراء نے اپنایا۔ اس عہد نامہ میں صرف ان حقوق کو شامل کیا گیا ہے جو اسلامی الہامی  قانون یعنی شریعہ سے مطابقت رکھتے ہیں۔ 

شریعہ کی روح کو قائم رکھنے کی خاطر تصوف 'طریقت' پر زور دیتا ہے، جو کہ 'حق' تک رسائی کا صوفی عبادات کا داخلی راستہ ہے۔ مگر اس امر میں نہائت احتیاط کی ضرورت ہے کہ اس سے یہ نہیں فرض کر لینا چاہئیے کہ چونکہ تصوف اسلام میں انتہا پسندی سے گریزاں ہے تو یہ اخلاقیات کے معاملہ میں اسلام اور بدھ مت کے درمیان رشتہ قائم کر سکتا ہے۔ اگرچہ بہت سے اسلامی ممالک میں آج بھی صوفی مدرسے قائم ہیں، مگر یہ امر کہ تمام اسلامی ممالک نے قاہرہ قرارداد پر دستخط کئیے، سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی قسم کی عالمگیر تہذیب یا ذمہ داری کے معاملہ میں شریعہ کو پیش نظر رکھنا لازم ہے۔ لہٰذا اس قسم کا اخلاقی منشور بنانے کی خاطر مزید بحث مباحثہ کرنا ضروری ہے جس میں دنیا کے تمام مذاہب اور لا دینی نظاموں کے مشترک اخلاقی نقطہ نظر کا تفصیلی جائزہ اور نشاندہی شامل ہو۔ 

یہ عین ممکن ہے کہ بدھ مت اور اسلام کے مابین مزید علمی تبادلہ کے سلسلہ میں تصوف کار آمد ہو سکتا ہے۔ تاہم، دونوں مذاہب کے درمیان مشترک نظریات کی تلاش میں تصوف پر زور دینا فائیدہ مند نہیں ہو گا۔ "تصوف" ایک تکنیکی اصطلاح ہے جس کا استعمال بنیادی طور پر دینی نظاموں میں خدا کے ساتھ کشفی وحدت پانے کے طریقوں میں ہوتا ہے۔ ایسی اصطلاحات بدھ مت کے لئیے جنس غیر ہیں۔ اس کے لئیے زیادہ اہم روحانی گورو کا تصور اور مراقبہ کے طریقے ہو گا، جیسا کہ پیار استوار کرنے کے لئیے مراقبہ کے طریقے، سانس کی مشقیں، منتروں کا جاپ یا 'ذکر'، اور تصوراتی مشقیں۔ ایسے موضوعات، البتہ، بدھ متوں اور مسلمانوں کی ایک محدود تعداد کے لئیے دلچسپی کا باعث ہوں گے، مگر دونوں ادیان کے عام روائیتی پیروکاروں کے لئیے نہیں۔ 

پس، بدھ مت اور اسلام پر مستند اور معتبر آن لائین اور چھپے ہوۓ مواد اور تقابلی مطالعوں کے علاوہ، نہ صرف ان دو مذاہب کے بلکہ زیادہ سے زیادہ جتنے بھی اس میں شامل ہو سکیں، لیڈروں کی بین الفرقہ جاتی پوجا کی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ وسیع تشہیر کا مذہبی ہم آہنگی، عالمگیر ثقافت اور عالمی ذمہ داری قائم کرنے پر بہت مثبت اثر پڑ سکتا ہے۔ 

Top