مشرقی ترکستان میں بدھ مت کی تاریخ

ختن اور تکلامکان ریگستان کا جنوبی کنارا

مشرقی ترکستان (سنکیانگ) میں بدھ مت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ بدھ مت ہندوستان سے ختن میں تکلامکان ریگستان کے جنوبی کنارے کی جانب سے پہلی صدی قبل مسیح میں داخل ہوا تھا۔ ختن کے رہنے والے ایرانی نسل کے تھے۔ کئی صدی بعد ہندوستان میں مہایان کے ظہور کے ساتھہ ختن جلد ھی مہایان بدھ مت کا ایک مرکز بن گیا۔

پہلی صدی عیسوی کے آس پاس بدھ مت گندھارا (پاکستان) اور کشمیر سے کاشغر میں آیا اور پھر گندھارا، کشمیر اور ختن سے کرورئینا کے ہند یوروپی نسل کے لوگوں تک گیا، جو ختن کے مشرق میں لوپ نور کے پاس واقع ہے۔ چوتھی صدی عیسوی میں کرورئینا کو بڑھتے ہوےٴ ریگستان کے حوالےکر دیا گیا اور وہاں کے بیش تر لوگ ختن چلے گئے۔

تخاری لوگ اور صحرائے تکلامکان کا شمالی کنارا

دوسری صدی عیسوی کے دوران ریگستان کی شمالی سرحد سے، تخاری لوگ بدھ مت کو کوچا اور ترفان لے گئے تھے۔

تخاری لوگ یوئ۔جی کی آل میں سے تھے جو کہ کاکیشیائی النسل تھے ، ایک قدیم مغربی ہند یوروپی زبان بولتے تھے اور کاکیشیائی نسل کے بعید ترین مشرقی گروہ کی نمائندگی کرتے تھے ۔ بعض مآخذ کے مطابق، یوئ۔جی لوگوں کا ایک گروہ موجودہ مشرقی قازقستان میں اور بالآخر موجودہ افغانستان اور تاجکستان میں منتقل ہوا تھا۔ وہاں ان لوگوں کی شناخت تخاریوں کے طور پر بھی ہونے لگی اور انھوں نے ہینیان بدھ مت کی سرواستیوادی شکل قبول کر لی۔ کوچا اور ترفان کے تخاریوں نے بھی اسی سرواستیوادی مکتب فکر کو قبول کیا۔

اگرچہ بیش تر ویغور لوگ جو ترکی النسل تھے، طوا کے التائی پہاڑی علاقے سے آئے تھے جو مغربی منگولیا کے شمال میں واقع ہے، تاہم ان کی ایک چھوٹی سی شاخ چوتھی صدی عیسوی سے ترفان میں رہتی چلی آ رہی تھی جو تخاری بدھ مت کی پیروکار تھی۔

چینی اور سغدیائی آبادکار

پہلی صدی قبل مسیح سے لے کر دوسری صدی عیسوی تک، چینوں کی کچھہ فوجی چھاؤنیاں ان نخلستانی ریاستوں میں واقع تھیں۔ لیکن یہ چین میں بدھ مت کے قیام سے پہلے تھا۔ اس کے بعد کی صدیوں میں ان چینی سوداگروں کے ذریعے، جو یہاں آئے تھے اور شاہراہ ریشم کی دونوں شاخوں کے ساتھہ ساتھہ بس گئے تھے، چینی بودھی اثرات پھیلتے گئے۔ ازبکستان سے سغدیائی بودھ تاجر بھی ان نخلستانی شہروں میں، خاص طور پر شمالی راستے کے کنارے بس گئے تھے اور یہ لوگ بھی بدھ مت کے فروغ میں اثرانداز ہوئے ۔ ختن کے باشندوں کے طرح سغدیائی لوگ بھی ایرانی النسل تھے۔

تبتی رابطہ

ساتویں صدی عیسوی کے اوائل سے لے کر نویں صدی عیسوی کے وسط تک، تبتوں نے، کاشغر، یارقند، گانسو کے بیشتر علاقے اور مشرقی کرغیزستان کو چھوڑ کر باقی تمام مشرقی ترکستانی ریاستوں پر حکومت کی تھی۔ بس درمیان میں ایک ایسا وقفہ تھا جب وہ چینیوں کے زیر اثر آگئے تھے۔ آثار قدیمہ کے شواہد سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس علاقے میں تبتی اثرات بہت کم پڑے۔ لیکن اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس، تبتوں نے ختن سے کافی اثرات قبول کیے تھے، خاص طور پر حروف ابجد اور بودھ تکنیکی اصطلاحات کے ترجمے کرنے کا اسلوب۔ یہی وہ ختنی رسم الخط ہے جس کو تونمی سمبھوتا نے کشمیر میں سیکھا تھا اور تبتی لکھنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ ختنی رسم الخط ایک ہندوستانی رسم الخط سے ماخوذ ہے، لیکن تبتوں کی طرح اس رسم الخط میں بھی سنسکرت کے طویل مصوتوں کے لیے ایک آچنگ کا استعمال کیا جاتا ہے، اور حروف کے خاتمے پر وہ اپنے مصوتے لگا دیتے ہيں۔

ویغور

نویں صدی عیسوی کے وسط میں تقریباً اسی وقت جب لنگ درما کی حکومت کے بعد تبتی لوگوں نے مشرقی ترکستان چھوڑا، التائی شاخ کے بیشتر ویغور جو پچھلی ڈیڑھ صدی سے منگولیا پر حکومت کر رہے تھے، ترفان چلے گئے۔ التائ شاخ کے لوگ کرغیز لوگوں کے ہاتھہ منگولیا کو ہار چکے تھے اور ترفان پہنچنے کے بعدانہوں نے قوچو سلطنت کی بنیاد ڈالی ۔ اس سلطنت نےصحرا کی پوری شمالی سرحد پر ازکوچا تا ھامی حکومت کی اور پھر جنوبی سرحد کے مشرقی حصہ پر لوپ نور کے گردو پیش تک۔ منگولیائی ویغور، جنھیں اب اسی نام سے جانا جاتا ہے، انہوں نے اپنے مانوی کے مذہب کو ترک کر دیا تھا اور اپنے ترفانی رشتے داروں کا مذہب یعنی بدھ مت کو اپنا لیا تھا۔ بہر حال، بعض علما کا خیال ہے کہ منگولیا کو چھوڑنے سے پہلے، سغدیائی بودھ تاجروں سے اپنے روابط اور ان بودھ ترکوں کے اثرات کے تحت، جنھوں نے منگولیا پر ان سے پہلے حکومت کی تھی، کچھہ ویغور لوگ بدھ مت اختیار کر چکے تھے۔

قاراخانی لوگ

نویں صدی عیسوی کے وسط میں تبتوں کے مشرقی ترکستان چھوڑنے کے بعد ختن آزاد ہو گیا اور وہاں کے لوگوں نے بدھ مت کو برقرار رکھا۔ کاشغر کے اطراف و جوانب میں آباد مقامی ترکی لوگوں نے قاراخانی سلطنت کی داغ بیل ڈالی، جو شروع میں کاشغر اور مشرقی کرغتزستان اور قازقستان کا احاطہ کرتی تھی۔ کچھہ علما کا خیال یوں ہے کہ یہ ترکی لوگ منگولیائی ویغور لوگوں کی ہی ایک شاخ تھے جو وہاں منتقل ہوگئی تھی۔ ایک صدی تک، قاراخانیوں نے کاشغر بدھ مت اور شمنی مذہب کے ایک ملے جلے روپ کی پیروی کی۔

سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے یہی قاراخانی تھے اور یہ واقعہ دسویں صدی عیسوی کے اواخر میں رونما ہوا تھا۔ جنگ کے ایک طویل دور کے بعد، بارہویں صدی کے وسط میں انھوں نے ختن پر فتح حاصل کر لی تھی اور اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ان جنگوں میں تبتی فوجوں نے اپنے ہم مذہب ختنی بودھوں کے طرف سے نبرد آزمائی کی تھی۔ بہر حال، قوچو کے ویغور بودھ مذھب کے پیروکار ہی رہے۔ انہوں نے چنگیز خان کے زیر حکومت منگولوں کو نہ صرف اپنے اس نظام تحریر سے متعارف کرایا، جو انہوں نے سغدیائی لوگوں سے اخذ کیا تھا، بلکہ وہ ان لوگوں میں بھی اولین حیثیت رکھتے تھے جنھوں نے بدھ مت کو منگولوں تک پہنچایا۔ بعد میں جب منگولوں نے تبتی بدھ مت اختیار کرلیا تب ویغوروں نے بھی اسے اپنا لیا۔ ویغوروں میں اسلام چودھویں اور سترہویں صدی کے دوران آہستہ آہستہ مغرب سے مشرق کی طرف پھیلا۔

دزونغر اور کلمیک منگول

سولہویں صدی عیسوی کے اواخر سے اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط تک جب مانچو لوگوں نے انہیں شکست دے کر تقریباً پوری طرح ان کا خاتمہ کر دیا تھا، دزونغر منگولوں نے تبتی بدھ مت کو مشرقی ترکستان کے شمال میں برقرار رکھا۔ سترہویں صدی عیسوی میں کلمیک منگول دزونغروں سے الگ ہو کر یوروپی روس کے والگا علاقے میں پہنچ گئے۔ اٹھارویں صدی کے اختتام پر، ان کا ایک حصّہ مشرقی ترکستان لوٹ آیا- تب سے یہ لوگ وہاں آباد ہیں اور تبتی بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ بہر حال، ہان اور ھُوِئی چینی مہاجرین کی موجودہ یورش سے پہلے، مشرقی ترکستانی آبادی کی بڑی اکثریت مسلمان ویغوروں پر مشتمل تھی ۔

Top