دو زندگیوں میں روحانی گورو کے ساتھ تعلق

ایک روحانی استاد کے ساتھہ گہرا تعلق کسی فرد کی زندگی کا سب سے زیادہ رفعت بخش تجربہ اور انھیں آپس میں جوڑنے کا ایک اہم ذریعہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ تعلق خود فریبی، دُکھہ اور روحانی مایوسی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس تعلق کو صحت مند بنانے کے لیے ہم کتنی کوشش کرتے ہیں۔ پھر یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کیا ہم اپنی اور اپنے استاد کی قابلیت کے بارے میں حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، ہمارا اس ربط کو قائم کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیا ہمیں اس تعلق کے خم و پیچ اور اس کے حدود کا صحیح اندازہ ہے۔

میں نے اپنی کتاب ایک روحانی "استاد کے ساتھہ وابستگی: ایک صحت مند تعلق کیسے قائم کریں" ( Relating to a Spiritual Teacher: Building a Healthy Relationship. Ithaca: Snow Lion, 2000; دوبارہ شائع: Wise Teacher, Wise Student: Tibetan Approaches to a Healthy Relationship. Ithaca: Snow Lion, 2010) بنیادی طور پر اس لیے لکھی تھی کیونکہ میں اپنے معزز استادوں، جن میں تسنژاب سرکونگ رنپوچے، تقدس مآب دلائی لامہ اور گَیشے نگاوانگ دھارگیئے ہیں۔ ان سے اپنے تعلقات کی بنا پرمیں بہت فیض یاب ہوا تھا۔ کتاب لکھنے کی ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مجھے اس بات کا دُکھہ ہوتا تھا کہ میرے عالمی تدریسی دوروں میں اور میرے تجربے میں ایسے بہت سے مخلص روحانی متجسس ملے جو میری طرح کے مکمل روحانی تجربے سے نہیں گزرے۔ ان میں سےکافی لوگ ایسے تھے جو کہ جنسی اقتصادی یا کسی اور سطح پر استحصال کا شکار ہونے کے بعد اپنے آپ کو مظلوم اور معصوم سمجھنے لگے تھے۔ اس تجربے کی ساری ذمے داری استحصال کرنے والے استادوں پر ڈال کر انہوں نے اپنے آپ کو تمام روحانی پیشواؤں سےالگ کر لیا تھا، یہاں تک کہ روحانی شعائر تک سے لا تعلق ہو گئے تھے۔ دوسرے متجسسین ایسے ہیں جو اس غیر صحت مند تعلق کا انکار کرتے ہیں اور جنھوں نے مان لیا ہے کہ ایک "گرو سے گہری عقیدت" کے برتاؤ کا نہ صرف جواز فراہم کرتی ہے بلکہ ایسے برتاؤ کو ایک طرح کا تقدس بھی عطا کرتی ہے، خواہ روایتی طرز فکر کے مطابق اسے کتنا ہی نقصان دہ کیوں نہ مانا جائے۔ یہ دو انتہا پسندانہ رویے شاگردوں کو اپنے استادوں کے ساتھہ ایک صحت مند تعلق کے ذریعے فیض یاب ہونے کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

اُن موقعوں پر جہاں شاگرد مغربی ہیں اور اُستاد تبتی، ایک مسئلہ جو عام طور پر درپیش ہوتا ہے، وہ ہے ثقافتی غلط فہمی کا ہے۔ یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے اگر ایک دوسرے سے غیر حقیقت پسندانہ توقعات وابستہ کر لی جائیں کیونکہ دونوں اپنے ثقافتی آداب کے مطابق ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔ مزید الجھنیں بھی اُس وقت پیدا ہو سکتی ہیں جب استاد اور شاگرد کے بیچ تعلقات کے بارے میں بندھے متنی حوالوں کو ہم ان کے اصل سیاق و سباق سے الگ کر کے دیکھتے ہیں، ان کے لفظی مفہوم پر اکتفا کرتے ہیں اور ترجمے کی خامیوں کی وجہ سے تکنیکی استعاروں کے غلط مطلب نکالتے ہیں۔

مثال کے طور پر "لم رِم" (مرحلہ در مرحلہ راستہ) کے متون اس تعلق کو "راستے کی جڑ" کے استعارے سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کو پہلے اہم موضوع کے طور پر زیر بحث لاتے ہیں۔ اس استعارے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ کوئی بھی پیڑ اپنی جڑ سے غذا پاتا ہے، یہ نہیں کہ اس کی ابتدا جڑ سے ہوتی ہے۔ ایک پیڑ کی ابتدا تو بیج سے ہوتی ہے، لیکن تسونگکھاپا نے اس تعلق کو "راستے کا بیج" نہیں کہا۔ آخر کار لم رِم کے اصل مخاطب نوخیز طالب علم نہیں تھے۔ یہ مخاطب لوگ ان راہبوں اور راہباؤں پر مشتمل تھے جو تانترک عطاء اختیار کے لیے اکٹھا ہوئے تھے اور جو ابتدائی تیاری کے طور پر سوتروں کی تعلیمات پر نظر ثانی کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کے لیے جو پہلے سے اپنی تعلیمات اور مشق کے ذریعے بودھی راہ سے وابستہ ہیں روحانی گرو کے ساتھہ ایک صحت مند تعلق ہی وہ جڑ ہے جس سے انہیں فیضان حاصل ہوتا ہے کہ روشن ضمیری کے درجے تک پہنچ سکیں اور کامیابی کے ساتھہ یہ پورا راستہ طے کرسکیں۔ اس کا مقصد کبھی بھی یہ نہیں تھا کہ مغربی دھرم مرکزوں میں آنے والے نوخیز لوگ لازماً اپنے روحانی استادوں کو بودھ کے روپ میں دیکھنے کے ساتھہ اپنی تعلیمات کا آغاز کریں۔ جہاں تک میرا اپنا سوال ہے، اپنے روحانی استاد کے ساتھہ میرا گہرا تعلق ان کی دو زندگیوں کا احاطہ کرتا ہے۔

میں نے نو سال تسنژاب سرکونگ رنپوچے، تقدس مآب دلائی لامہ کے خاص استادِ منطق اور نائب اتالیق،کے شاگرد، ترجمان، انگلش سکریٹری، بیرونِ ملک کے سفر کے ناظم کے طور پر کام کیا۔ رنپوچے ۱۹۸۳ء میں گزر گئے اور ٹھیک نو مہینے بعد ان کے دوسرے جنم پر ان کی شناخت کر لی گئی اور چار سال کی عمر میں انھیں دھرم شالہ بھیج دیا گیا۔ کچھہ ہی مہینے بعد ان سے ملاقات ہونے پر ہم دونوں نے ایک دوسرے سے اپنے گہرے تعلق کی دوبارہ تصدیق کر لی۔ ایک خادم سے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ مجھے جانتے ہیں اُس ننھے ٹولکو نے جواب دیا۔ "بیوقوف مت بنو۔ بیشک، میں جانتا ہوں، یہ کون ہیں۔" اس وقت سے رنپوچے نے مجھے اپنی روحانی خاندان کے ایک فرد کی طرح قبول کر لیا اور میرے ساتھہ اسی طرح کا برتاؤ کیا۔ اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ایک چار سالہ بچہ فریب نہیں دے سکتا۔ اپنے طور پر مجھے ان کے ساتھہ گہرے تعلق میں کوئی شک نہیں ہے۔

۲۰۰۱ء کی موسم گرما میں، میں نے رنپوچے کے ساتھ جنوبی ہندوستان میں ان کی خانقاہ گاندن جانگتسے میں ایک مہینہ گزارا تھا، جہاں سترہ سال کی عمر میں انھوں نے راہبوں کے ایک مجمع میں باقاعدہ طور پر عالموں کی صفوں میں اپنی شمولیت کے موقع پر بحث کی تھی۔ اُس مہینے کے دوران میں نے ان سے ان کی گَیشے کی تربیت کے بارے میں تعلیمات حاصل کی تھیں، اور ایک زبانی گفتگو اور ایک متن کی تشریح کا ترجمہ کیا تھا، جو کہ وہ اپنے پیش رو کے ایک مغربی شاگرد کو دے رہے تھے۔ جب میں نے یہ کہا کہ مجھے دوبارہ ان کے لیے ترجمہ کرنا کتنا اچھا لگ رہا ہے تو انھوں نے جواب دیا، "بیشک، یہ آپ کا کرم ہے"۔ میں نے بھی انھیں دھرم اور دنیوی چیزوں کے بارے میں مشورے دینے کے اس غیر رسمی سلسلے کو جاری رکھا جس کی شروعات میں نے ان کے پچھلے جنم میں کی تھی۔

سرکونگ رنپوچے کے ساتھہ دو زندگیوں پر مشتمل تعلق سے مجھے دھرم اور دوسرے جنم کے بارے میں جو خود اعتمادی حاصل ہوئی ہے وہ شاید ہی صرف مطالعے اور مراقبے سے مل سکتی ہو۔ یہ میرے لیے اس راہ میں واقعی ایک فیض جاریہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ نہ تو وہ اور نہ ہی میں، کسی بھی جنم میں ایک دوسرے کے تئیں اپنے کردار کے بارے میں خود کو فریب دیتے ہیں۔ نہ ہم بالکل وہی ہیں جو پہلے تھے، نہ اس سے بالکل مختلف ہیں۔ دونوں ہی کسی اور سلسلے کی ایک بڑی کڑی ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے گہرے احترام کے ساتھہ، جو ہماری اب کی اور اس سے پہلے کی زندگی کے مختلف مراحل کے تئیں حقیقت پسندانہ رویے پر مبنی ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو سہولت کے ساتھہ سکھاتے ہیں اور اسی طرح ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ یہ ہمیں قطعاً فطری محسوس ہوتا ہے۔

"سٹار ٹریک" (Star Trek ) کے ایک مداح کی حیثیت سے میں اپنے تجربے کو اس طرح دیکھتا ہوں کہ میں اصل سیریز اور "دوسری نسل" (Next Generation ) میں کپتان کرک کے ماتحت عملے کا ایک فرد ہوں اور اب ان کی جون میں پھر سے جنم لینے والے کپتان پیکارڈ کی ماتحتی میں ایک نوجوان سپاہی ہوں۔ میرے لیے سب سے بڑا چیلنج اور سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ میںمستقبل کی سارے "اینٹرپرازیز" (Enterprises ) میں عملے کے ایک رکن کی حیثیت سے اپنی خدمت انجام دے سکوں۔

Top