اتیشا کی زندگی

36:10

بچپن اور شہزادگی کی زندگی کو تیاگنا

مشرقی ہندوستان میں، جاہورکےعلاقہ میں، بنگالہ کے شہر میں، گولڈن بینر محل میں، راجہ کلیان فضیلت مآب اور رانی پربھاوتی نورانی رہتے تھے۔ شاہی محل میں ایک کے اوپر ایک، کل تیرہ چھتیں تھیں اور انھیں شاندار انداز میں پچیس ہزار سنہرے پرچموں سے آراستہ کیا گیا تھا۔ یہ محل ان گنت سبزہ زاروں، تالابوں اور خوبصورت باغوں سے گھرا ہوا تھا۔ یہ مملکت ویسی ہی ثروت مند تھی جیسی کی چین کہ قدیم اور خوش حال سلطنتیں۔

اس شاہی جوڑے کے تین بیٹے تھے۔ پدم گربھہ، چندر گربھہ اور شری گربھہ۔ ان میں سے دوسرا شہزادہ بڑا ہو کر ہمارا معزز محترم آتیشا (۹۸۲ء-۱۰۵۴ء) استاد بنا۔

آتیشا کی عمر اس وقت اٹھارہ مہینوں کی تھی جب ان کے والدین انھیں مقامی عبادت خانے، کمالپوری لے گئے تاکہ وہ پہلی بار عام لوگوں سے مخاطب ہوں۔ بغیر کسی ہدایت کے، آتیشا اندر رکھی ہوئی مقدس چیزوں کے آگے سجدہ گذار ہوئے اور بیساختہ انداز میں کلام کیا۔ ''اپنے والدین کی درد مندی کے باعث، مجھے یہ بیش بہا انسانی زندگی نصیب ہوئی ہے جس کے طفیل میں آپ سب کی عظیم شبیہوں کے دیدار سے مشرف ہوا ہوں۔ میں آپ سے میری زندگی میں محفوظ سمت ہمیشہ کے سوا پوجتے ہو جائیں گے۔" جس وقت انھیں باہر اپنی محکوم رعایا سے متعارف کرایا گیا، تو انھوں نے دعا فرمائی کہ وہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لے آئیں تاکہ رعایا کی ہر احتیاج پوری کی جا سکے۔ انھوں نے یہ دعا بھی فرمائی کہ وہ ایک روحانی سالک کی خلعت سے بہرہ ور ہوں جو عائلی زندگی کو تیاگ چکا ہو، اس پر کبھی مغرور نہ ہو اور ہمیشہ دوسروں کے تئیں درد مندی ہمدردی اور محبت آمیز سروکار کا رویّہ رکھتا ہو۔ یہ واقعہ اتنے چھوٹے سے بچے کے لیے غیر معمولی تھا۔

جیسے جیسے آتیشا بڑے ہوتے گئے، ان کی ایک بھکشو راہب بننے کی خواہش تیز سے تیز تر ہوتی گئی، مگر ان کے والدین کی توقعات مختلف تھیں۔ ان کے تینوں بیٹوں میں آتیشا سب سے زیادہ ہونہار تھے اور ان کی پیدائش کے موقعے پر ظاہر ہونے والی مقدس نشانیوں نے انھیں اس بات کا یقین دلا دیا تھا کہ وہی ان کے شاہی ولی عہد ہوں گے۔ لہٰذا، جب یہ بیٹا گیارہ برس کی عمر کو پہنچا، جو اس زمانے میں شادی کی عام عمر سمجھی جاتی تھی، تو والدین نے ایک دلہن کے انتخاب سے متعلق تقریب کا اہتمام شروع کر دیا۔

شادی کی شام کو، بودھ کی شبیہہ (یئدم) تارا نے، ایک خواب میں آتیشا کے سامنے اچھی طرح ظہور کیا۔ تارا نے انھیں بتایا کہ آنے والی پانچ سو زندگیوں کے دوران وہ ایک بھکشو راہب رہے تھے، اس لیے اس دنیا کی عارضی مسرتوں سے ذرا بھی دل نہ لگائیں۔ تارا نے یہ وضاحت بھی کی کہ اگر دنیوی لذتوں کا اسیر کوئی عام شخص ہو تو اسے اس چکّر سے نکالنا نسبتاً سہل ہوتا ہے، جیسے کہ کسی بکری کو ریت کے بھنور سے نکال لیا جائے۔ لیکن ایک شہزادے کی حیثیت سے، اگر وہ اس بھنور میں جا پھنسے تو انھیں نکالنا ہی مشکل ہوگا جیسے کہ ایک ہاتھی کو۔ شہزادے نے اپنا خواب کسی سے بیان کیا، لیکن چالاکی سے دوسرے بہانے بنا کر، اپنے آپ کو اس شادی سے بچا لیا۔

اپنے دل میں یہ پکا عہد کر کے کہ انھیں ایک روحانی گُرو، مرشد، تک پہنچنا ہے، مگر والدین سے یہ کہہ کر کہ وہ شکار پر جانا چاہتے ہیں، آتیشا ۱۳۰ گھوڑ سواروں کے ساتھہ اپنے محل سے نکل پڑے۔ جنگل بیابان میں ان کی پہلی ملاقات ایک مقدس جتاری سے ہوئی جو برہمنوں کی پروہت ذات کا تھا اور ایک تارک الدنیا بودھ کی زندگی گزار رہا تھا۔ آتیشا نے برہمن پروہت سے رسماً زندگی کی ایک محفوظ سمت کا سبق لیا اور پھر بودھی ستوا کی عہد و پیمان حاصل کیں۔ پھر اس بزرگ نے آتیشا کو نلندا کی الگ تھلگ اور پر سکون خانقاہوں میں گھری ہوئی یونیورسٹی اور روحانی گرو بودھی بھدر کی طرف روانہ کر دیا۔

آتیشا اپنے سب گھوڑ سواروں کے ساتھہ فوراً چل پڑے اور وہاں پہنچ کر، بودھی بھدر سے انھوں نے دوبارا بودھی ستوا کی عہد و پیمان اور تعلیمات حاصل کیں۔ اس کے بعد، مزید ہدایات کے لیے انھیں عظیم گُرو وديا کوکل اور پھر نامی گرامی استاد اودھوتیپا کا راستہ دکھادیا گیا۔ ثانی الذکر استاد نے آتیشا کو گھر واپس جانے کی تلقین کی، اور اس بات کی کہ وہ ہر ایک کے ساتھہ احترام سے پیش آئیں، لیکن عیش و عشرت کی اس زندگی کے نقائص اور نقصانات کو سمجھنے کی کوشش کریں، پھر واپس جائیں۔

آتیشا کے والدین انھیں دیکھہ کر خوش ہوئے اور یہ سوچا کہ بالآخر آتیشا اپنا گھر جمائیں گے، بیاہ رچائیں گے اور اپنے آئندہ راج پاٹ کی تیاری کریں گے۔ بہر نوع، بیٹے نے انھیں یہ بتا دیا کہ در اصل وہ ایک روحانی مرشد کی تلاش میں گئے تھے تاکہ انھیں زندگی کا سبق حاصل ہو سکے۔ آتیشا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی تمام تر آرزو ایک گیان دھیان کی پرسکون زندگی گزارنے کی ہے اور ان کے آنے کا مقصد اپنے راج کاج کے فرائض سے رخصت لینے کا ہے۔

والدین نے، جنھیں بیٹے کے ان الفاظ سے صدمہ پہنچا تھا، اسے گھر چھوڑنے سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ اگر وہ چاہے تو ان دونوں زندگیوں کو جوڑ سکتا ہے اور یہ پیش کش بھی کی کہ محل کے قریب ہی وہ مطالعے کے لیے خاموش اور پر سکون خانقاہیں بنوادیں گے، غریب محتاجوں کے کھانے پینے کا انتظام کر دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ انھوں نے بہت سمجھایا کہ وہ اب جنگل کو واپس نہ جائے۔ لیکن آتیشا نے انھیں بتایا کہ اسے شاہانہ زندگی سے ذرا بھی دل چسپی نہیں ہے۔ اس نے کہا "میرے لیے یہ سونے کا محل قید خانے سے مختلف نہیں ہے۔ وہ شہزادی جسے آپ پیش کرنا چاہتے ہیں دیووں کی بیٹی سے مختلف نہیں ہے۔ وہ مزیدار کھانا کسی کتّے کے خراب گوشت سے مختلف نہیں ہے۔ اور یہ ریشمی ملبوسات اور ہیرے جواہرات کوڑے کے ڈھیر پر پڑے ہوئے چیتھڑوں سے مختلف نہیں ہیں۔ آج کے دن سے آگے، میں نے جنگل میں جا بسنے اور گرو اودھوتیپا کے قدموں میں بیٹھہ کر پڑھنے لکھنے کا پختہ عزم کر لیا ہے۔ مجھے بس تھوڑا سا دودھ، شہد اور دیسی شکر چاہیے، اس کے بعد میں آپ سے رخصت لوں گا۔"

آتیشا کے والدین کے پاس اب بیٹے کی درخواست مان لینے کے سوا کوئی چارا باقی نہیں رہ گیا تھا، چنانچہ آتیشا اپنی تھوڑی سی سامگری کے ساتھہ جنگل کو لوٹ گئے اور والدین کے اصرار پر آتیشا کو شاہی خدّام کا ایک پریشان کن حد تک لمبا چوڑا قافلہ بھی ساتھہ لے جانا پڑا۔ اودھوتیپا نے اب نوجوان شاہزادے کو کالے پربت پر گرو راہل گپت کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ ان سے تنتر کے درس لے سکے۔ آتیشا اپنے گھوڑ سواروں کے ساتھہ آئے اور اس وجر گُرو سے عرض کیا کہ اس نے کس طرح بہتیرے گروؤں سے تعلیم حاصل کی ہے لیکن ابھی تک وہ شاہانہ زندگی کے بندھنوں کو توڑ پھینکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ راہل گپت نے اسے اپنا پہلا عطاء اختیار دیا جو ہیوجر کی اس مشق سے متعلق تھا کہ دماغ میں کس طرح بودھ کی ایک شبیہہ کو یکسوئی کے ساتھہ جمایا جائے۔ پھر اس نے شہزادے کو اپنے آٹھہ چیلوں کے ساتھہ جن میں چار مرد تھے اور چار عورتیں اور جنھوں نے مہاسِدّھوں کے ہڈیوں سے بنے ہوئے زیورات پہن رکھے تھے، اور جو حقیقی مذہبی یا روحانی کامرانیوں کے تجربے میں زبردست مہارت رکھتے تھے، ان سب کو واپس محل کی طرف بھیج دیا۔

آتیشا نے اپنے ان نامانوس نئے ساتھیوں کی معیت میں تین مہینے کی مدّت محل کے ماحول میں گزاری جہاں اس کے ہاؤ بھاؤ پوری طرح غیر روایتی اور اشتعال انگیز تھے۔ اخیر میں آتیشا کے والدین اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اپنے قیمتی بیٹے سے وابستہ تمام امیدوں سے ہاتھہ دھو بیٹھیں۔ یہ سوچ کر کہ ان کے بیٹے کا دماغ چل گیا ہے، انھوں نے اسے اپنے بے ہنگم دوستوں کے ساتھہ محل چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلے جانے کی پوری اجازت دے دی۔

ہندوستان اور سنہرے جزیرے پر مطالعات

آتیشا فوراً اپنے گرو اودھوتیپا کی خدمت میں بھاگ کر جا پہنچے اور اب اکیس ے لے کر پچیس برس کی عمر تک حقیقت کے مدھیامکہ درمیانی تصور کو گہرای کے ساتھہ سمجھنے میں لگ گئے۔ اس عرصے میں انھوں نے دوسرے انتہائی ممتاز اساتذۃ سے بھی پڑھنا جاری رکھا اور تنتر کے مختلف نظاموں کی مشق کے واسطے سے اس میدان میں غیر معمولی مہارت حاصل کر لی۔ واقعہ تو یہ ہے کہ اپنی اس مشق و مہارت کا نشہ ان کے دماغ میں اتر گیا اور وہ سمجھنے لگے کہ ان خفیہ طریقوں کی مدد سے وہ اپنے دماغ کی حفاظت ہوشیاری کے ساتھہ کر سکتے ہیں اور انھوں نے اپنے تمام متون پر عبور حاصل کر لیا ہے۔ مگر پھر انھوں نے ایک آسمانی حور، ڈاکنی کی خالص زیارت کی جس کی حرکات، بے خبری کے باعث ہر بندش سے آزاد دکھائی دیں اور جس نے اس قسم کے تنتر نظاموں کے لازوال چشموں پر بہت سی جلدیں اپنے بازوؤں میں سنبھال رکھی تھیں۔ اس نے آتیشا سے کہا، "تمھاری دنیا میں بس گنتی کے ایسے متون ہیں، لیکن ہماری دنیا میں ان کی بہتات ہے۔۔” اس واقعے کے بعد آتیشا کا غرور ٹوٹ گیا۔

ایک دن، اس نے رخصت پر جانے اور اپنی ساری توانائیوں کو تنتر کی مشقوں کے لیے وقف کر دینے کا فیصلہ کیا تاکہ اسے اپنی زندگی ہی میں اپنی تمام تر استعداد کو بروئے کار لانے کا تجربہ ہو سکے۔ آتیشا کے وجر گرو راہل گپت اس کے خواب میں آئے اور اسے مشورہ دیا کہ وہ ایسا کرنے سے باز رہے، ہر ایک سے اپنا ربط نہ توڑے، بلکہ ایک بھکشو راہب بن جائے۔ اسے چاہیے کہ کڑی مشقت کے ساتھہ اس شیوے پر قائم رہے اور ایک معینہ مدت کے اندر مکمل روشن ضمیری حاصل کر لے۔ اس طرح، انّیس برس کی عمر میں، آتیشا نے اپنے ایک مہارت یافتہ بزرگ، شیل رکشت سے ایک روحانی سالک کا خطاب و خلعت حاصل کر لیا جو گھریلو زندگی کو تیاگ چکا ہو اور جسے دیپمکار گیان کا لقب مل چکا ہو یعنی کہ "ایک ایسا شخص جس کا گہری آگہی ایک چراغ کی طرح گرد وپیش کو منور کر سکے"۔

خلعت و خطاب کی حصولیابی کے بعد کے دو برسوں میں، آتیشا نے اودنت پوری کی خانقاہی یونیورسٹی میں، عظیم المرتبت دھرم رکشت کے ساتھہ جو ہمارے رویّوں کی تنقیہ (اور ذہنی تربیت) کے سلسلے میں معروف 'لوجونگ' متن "تیز دھار ہتھیاروں کا پہیہ" کے مصنف ہیں، تعلیم حاصل کی۔ ان کا زور تمام ہینیان یا واجبی قسم کی ذہنی افتاد کے حامل ایسے طریقوں پر تھا جو مُکش وسیلہ کو طے کرنے میں معاون ہوں، مگر آتیشا ہمیشہ غیر مطمئن رہے۔ انھیں اپنی تمام داخلی استعداد کو بروئے کار لانے کے سب سے تیز رفتار طریقے کی جستجو تھی۔

آتیشا کے وجر گُرو راہل گپت نے ان سے کہا، "اہم بات یہ نہیں ہے کہ تم نے عالم خیال میں بصیرت کی آنکھہ سے کیا کیا دیکھہ لیا، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ تم محبت، درد مندی اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے اور روشن ضمیری، ، بودھیچت، حاصل کرنے کے مقصد کی خاطر اپنے آپ کو، پوری طرح وقف کر دو۔” انھوں نے آتیشا کو مشورہ دیا کہ وہ خود کو اپنے دل کی گہرائی سے بودھ کی شبیہہ آوالوکیت-ایشور سے وابستہ کردیں، اپنے دماغ کو اس شبیہہ کے ساتھہ مضبوطی سے جوڑ دیں اور روشن ضمیری کی حصولیابی کے لیے کام کریں تاکہ ہر کسی کو بار بار جنم لینے کے بے اختیارانہ سلسلے اور سنسار کی بندشوں سے اچھی طرح نجات دلا سکیں۔ بس اسی کامرانی کے ذریعے وہ اپنے وجود کی تمام تر توانائی کو پہچان سکیں گے۔

بودھ گیا کے مقام پر وجراَسَن وجراسن یعنی وجر کی نشست میں، اُس وقت جب وہ بدھ فلسفی کے اعزاز کی خاطر، عظیم ستوپ کے یادگار مقبرے کا طواف کر رہے تھے، آتیشا نے اپنے سر کی اونچائی پر ایک طاق میں دو مجسموں کو ایک دوسرے سے سرگوشی کرتے ہوئے سنا۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا۔ "اگر تم جلد سے جلد روشن ضمیری کی حصولیابی چاہتے ہو تو تمھیں کس قسم کی ریاضت درکار ہوگی؟" جواب تھا، " بودھیچت۔” ۔اور اس وقت جب وہ مقبرے کے گنبد کا طواف کر رہے تھے، بدھ فلسفی کے ایک مجسمے نے انھیں یہ کہتے ہوئے مخاطب کیا کہ "اے بھکشو راہب! اگر تمھیں اپنی تمام تر مخفی توانائیوں کو پہچاننے کی جلدی ہے تو محبت، درد مندی اور بودھیچت کی تربیت حاصل کرو۔”

اُس زمانے میں اپنے بودھیچت، نورِ بصیرت، کو کس طرح بڑھایا جائے، اس بات کی تربیت دینے والے مشہور ترین گرو دھرم کیرتی (دھرم پال) تھے، سنہرے جزیرے میں سوارنا دویپ کے پُر جلال استاد۔ چنانچہ ایک سو پچیس ذی علم راہبوں کے ساتھہ، ایک تجارتی جہاز پر آتیشا اُس سنہرے جزیرے کی طرف چل پڑے جو آج سماترا کہلاتا ہے۔ اُن دنوں طویل سمندری سفر آسان نہیں تھا اور خاص طور پر اس وقت بہت مشکل پیش آتی تھی جب سفر کے دوران طوفان کا اور وھیل مچھلیوں کا سامنا ہوتا، اور لوگ کبھی راستہ بھی بھول جاتے تھے۔ اپنے اس سفر کو طَے کرنے میں انھیں تیس مہینوں کا دقّت طلب وقت لگ گیا، لیکن آتیشا نے شروع سے اخیر تک ہمت نہ ہاری۔

بالآخر، جب وہ اپنی منزل پر پہنچے، آتیشا نے اُس معروف استاد کی خدمت میں حاضری دینے کے لیے کسی طرح کی جلد بازی نہیں کی بلکہ پورے دو ہفتوں تک وہ اس نامور گرو کے شاگردوں کے ایک حلقے میں رہے۔ آتیشا نے انھیں بار بار اکسایا کہ وہ اپنے گرو کے بارے میں کچھہ باتیں بتائیں اور گرو کے سوانح پر زور دیا۔ اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کسی روحانی استاد کو پرکھنے اور اس کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے سے پہلے اس کی، وہ چاہے مرد ہو یا عورت، استعداد کو سمجھنے کی اہمیت کیا ہے۔

اس اثنا میں، سنہرے جزیرے کے پرجلال استاد کو بھی ہندوستان سے اپنی روحانی جستجو کے سفر پر ایک ذی علم اسکالر اور اس کے بھکشو ساتھیوں کی آمد کا پتہ چل چکا تھا۔ اس نے اپنے حلقے کے راہبوں کو اُن کے استقبال کے لیے اکٹھا کیا اور اُس وقت، جب آتیشا وہاں پہنچے، انھوں نے آپس میں مل کر مستقبل کے لیے مبارک سمجھی جانے والی بہت سی رسمی تقریبات کا اہتمام کیا۔ اس نے آتیشا کو بودھ کی ایک مورتی بھی پیش کی اور یہ پیشن گوئی کی کہ ایک دن وہ برف کی شمالی سرزمین کے لوگون کے دماغ سدھائیں گے۔

سنہرے جزیرے میں آتیشا نے بارہ سال قیام کیا اور بہت پر شوق انداز میں اپنے گرو سے تربیت حاصل کرتے ہوئے۔ انھوں نے پہلے"آگاہیوں کی ایک زردوزی" کا مطالعہ کیا، جو عالم ہمہ داں گُرو کی دوررس اور "دور رس امتیازی آگاہی کے سوتروں" کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے فاتح بودھ مائیتریا کی رہ نما ہدایت پر مبنی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے بتدریج انسان کے مجموعی اطوار سے متعلق مائیتریا اور اسانگ کے سلسلے کی تمام تعلیمات، اور اسی کے ساتھہ ساتھہ خود غرضی کو بدل کر دوسروں سے تعلق پیدا کرلینے کی بابت خصوصی سلسلے کی تعلیمات، جو بودھی ستوا شانتی دیو تک، جو فاتح بودھ کا روحانی فرزند تھا، اعزاز بخش اورمعصوم کامل منجوشری سے براہ راست پہنچی تھیں۔ اُن سب کا حصول کیا۔ ان طریقوں سے اپنے بودھیچت مقصد یعنی عرفان ذات کی مکمل حصولیابی سے فارغ ہو کر آتیشا، پینتالیس برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد، واپس ہندوستان آئے اور پھر وکرم شِلا یونیورسٹی کی پرسکون خانقاہ میں اپنا بیشتر وقت گزارا۔

سب ملا کر، آتیشا نے ۱۵۷ عظیم المرتبت اساتذہ سے تعلیم پائی، لیکن سنہرے جزیرے کے اس ذی شان معلم اور اس کے طریقِ تعلیم کے لیے آتیشا کے دل میں ایک ایسا خاص احترام تھا کہ جب بھی وہ اس کا نام لیتے یا کسی سے سنتے، تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔ اپنے تبتی شاگردوں سے بعد میں یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جذباتیت کے اس اظہار سے یہ جتانا مقصود ہے کہ وہ اپنے ایک استاد کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں، آتیشا نے جواب دیا، " میں اپنے تمام روحانی اساتذہ میں کوئی تفریق نہیں برتتا۔ مگر اپنے سنہرے جزیرے والے اس پر جلال معلم کی مہربانی سے ہی میں نے یہ دماغی سکون اور بودھیچت مقصد سے ہم آہنگ یہ قلب موقوف پایا ہے۔"

آتیشا کو تبت مدعو کیا جانا

آتیشا کی ہندوستان واپسی کے بعد، انھوں نے اپنے فاتح بودھ کے مقدس دھرم کی حفاظت اور سربلندی کے لیے رسمی مناظروں میں غیر بودھ انتہا پسندوں کو تین مرتبہ ہرایا۔ وہ جہاں بھی گئے اور انھوں نے جب بھی زوال زدہ اور ناواقفیت پر مبنی رسوم کے نشانات دیکھے، بودھ حلقئہ اثر میں انھوں نے بہت سے تعلیمی ادارے قائم کیے اور فوراً ہی ان کے سدھار کا کام شروع کر دیا۔ ان کی شہرت ہندوستان بھر میں پھیل گئی۔ اس درد مندی اور بصیرت کے باعث، انھیں وسیع المطالعہ استادوں کی صف میں ایک سرتاج کے احترام آمیز مرتبے پر فائز کیا گیا۔ بہر حال، انھوں نے تبت کی برف کی سرزمین کے باشندوں کو عظیم ترین برکات اور فیوض سے مالا مال کیا۔

اگرچہ، بالخصوص گرو رنپوچے پدم سمبھاوا اور دوسرے کئی اصحاب کی کوششوں سے بودھ دھرم صدیوں پہلے تبت میں داخل کیا جا چکا تھا۔ لیکن راجہ لنگدرما (۸۶۳ء -۹۰۶ء) کے جابرانہ رویے سے اس ابتدائی پیش رفت کو زبردست دھچکا لگا۔ بس تھوڑے سے پیروکار باقی رہ گئے اور بعد میں تو بہت سے نکات کو اچھی طرح سمجھے بغیر ہی چھوڑ دیا گیا۔ بہتوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ اخلاقی تضبط نفس اور تنترباہمی طور پر استثنائی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کہ روشن ضمیری کی حصولیابی مدہوشی اور جنسی بے راہروی کے مختلف طریقوں کی مدد سے ممکن ہے۔ دوسرے بہت سے لوگوں کا یقین تھا کہ ہینیان اور مہایان کی تعلیمات بھی اسی طرح ایک دوسرے کی تردید کرتی ہیں اور ہمیں الگ الگ مُکش اور روشن مضیری کی طرف لے جاتی ہیں۔

اس زوال زدہ صورت حال سے افسردہ ہو کر تبتی راجا یے-شے-وو نے شدت کے ساتھہ یہ خواہش کی کہ ہندوستان کے عظیم المرتبت خانقاہی مراکز میں شمار کیے جانے والے کسی ایک مرکز سے ایک ذی علم استاد کو تبت آنے کی دعوت دی جائے اور یہ الجھن رفع ہو۔ آتیشا کے بارے میں خصوصی علم نہ ہونے کے باعث، اس نے اکیس نوجوان طالب علموں کو سنسکرت پڑھنے اور ایک مناسب گرو کا انتخاب کرنے کے لیے بھیجا۔ ان میں سے دو کو چھوڑ کر باقی سب گرمی سے مر گئے۔ کسی کو مدعو کرنے میں ناکامی، مگر سنسکرت سیکھہ کر نئے مترجمین رنچن زانگپو (۹۵۸ء -۱۰۵۱ء) اور لگشے راجا کے پاس واپس آئے اور اسے آتیشا کے بارے میں بتایا۔

راجا نے جیسے ہی آتیشا کا نام سنا، اس نے اپنے دل میں طے کر لیا کہ در اصل اسے ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے۔ بلا کچھہ وقت گنوائے، گیاتسن سینگ کی سربراہی میں، راجا نے نو افراد پر مشتمل ایک دوسری جماعت زرِ کثیر کے ساتھہ آتیشا کو مدعو کرنے کے لیے بھیجی۔ لیکن ان میں سے بھی آٹھہ جاں بحق ہو گئے اور آتیشا کو اپنے ساتھہ لانے میں ناکام ہونے کے بعد گیا-تسون-سینگ ہندوستان میں ہی رک گیا ۔ یے-شے-وو تک جب اس دوسری ناکامی کی خبر پہنچی، تو اس نے بجائے خود ایک مہم کی قیادت اور ایک نئی جماعت کے لے مزید سرمایہ، سونا، جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس مشن کےدوران، اپنے ایک حریف گارلوگ کے راجاکے ذریعہ نیپال کی سرحد پر گرفتار کر لیا گیا جو تبت میں بدھ مت کی مزید اشاعت پر پابندی لگانا چاہتا تھا۔

راجا یے-شے-وو کے بھتیجے، جانگ-چوب-وو کو اطلاع دی گئی کہ یا تو وہ ہندوستان جانے کے اس مشن سے دست بردار ہو جائے یا پھر اپنے چچا کی جسامت کے برابر سونا جمع کرے تاکہ اسے آزاد کرایا جاسکے۔ بھتیجے نے پوری مملکت کا چکّر لگایا لیکن بس اتنا ہی سونا اکٹھا کر سکا جو راجا یعنی اس کے چچا کے بے سر کے جسم یا اس کے ہاتھوں پیروں کے وزن کے برابر ہو۔ راجا کے سر جتنے وزن کا مزید سونا اسے حاصل نہ ہو سکا، گارلوگ حکمراں نے جب پورے معاوضے کا مطالبہ کیا تو بھتیجے نے اپنے چچا سے ملاقات کی اجازت طلب کی۔

اسے لوہے کی سلاخوں سے گھری ہوئی ایک کال کوٹھری میں لے جایا گیا۔ وہاں اس نے چچا سے جسے یرغمال بنایا گیا تھا اور جو زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور بہت دبلا ہو گیا تھا، پوری تفصیل بتائی اور یہ بھی کہا کہ بقیہ سونے کی حصولیابی کے لیے وہ اپنی تلاش جاری رکھے گا۔ "امید نہ چھوڑیے" بھتیجے نے چچا سے کہا "کیونکہ میں مقرر رقم مہیّا کر لوں گا، میں تو اس گارلوگ راجا سے جنگ بھی کر سکتا تھا، مگر اس میں بہتوں کی جان جائے گی۔ آپ کی آزادی کا پورا معاوضہ ادا کر دینا ہی سب سے بہتر ہے۔"

"میرے پیارے بھتیجے" معمر راجا نے جواب دیا، "مجھے تم سے کبھی بھی اس دردمندی اور دانش مندی کی توقع نہ تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ تم تشدد کی برائیوں کو سمجھتے ہو، لیکن اب تم مجھے بھول جاؤ۔ اس کے بجائے یہ کرو کہ جمع کیا ہوا سارا سونا عظیم المرتبت استاد آتیشا کو تبت بلانے پر صرف کرو! میں پچھلے جنموں میں ان گنت بار مر چکا ہوں، لیکن مجھے یقین ہے کہ میں نے پہلے کبھی، اپنے آپ کو میتریا، کامراں و کامیاب گرو، کے دھرم کی راہ میں قرباں نہیں کیا۔ اب میں یہ کر کے بہت خوش ہوں ۔ تم جس کسی کو ہندوستان بھیجو، اس کے ذریعے آتیشا کو یہ کہلا دو کہ اپنی رعایا کی فلاح اور دھرم کے لیے میں نے اپنی زندگی دے دی ہے تاکہ آتیشا کو تبت لایا جا سکے۔ گرچہ اس زندگی میں مجھے ان سے ملاقات کی سعادت نہیں مل سکی، مجھے پرجوش امید ہے کہ مستقبل میں یہ آرزو ضرور پوری ہوگی۔" بھتیجے نے چچا کے حکم کے آگے سر جھکا لیا اور صدمے سے تقریباً مغلوب ہو کر ان سے رخصت لی۔

اب جانگ-چوب-وو تبت کا راجا بن گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ سب سے اچھا شخص جسے اس تیسرے مشن پر بھیجا جائے، مترجم ناگ-تسو ہوگا جو پہلے کئی بار ہندوستان جا چکا ہے۔ نئے راجا نے اسے محل میں آنے کی دعوت دی اور یہ اصرار کرتے ہوئے کہ وہ مترجم تختِ شاہی پر بیٹھے، اس سے اپنے مقصد کی وکالت کرنے لگا۔ "میرے چچا نے جان اس لیے دی تاکہ آتیشا کو تبت بلایا جا سکے۔ اگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو اس سرزمین کے آفت زدہ لوگ پُنر جنموں کے ہولناک چکر میں جا پڑیں گے۔ میں آپ سے ان بدبخت لوگوں کو بچانے کی منّت کرتا ہوں۔" یہ کہتے کہتے جواں سال راجا کا گلا بھر آیا اور وہ رونے لگا۔ ناگ-تسو کے سامنے اس بات کو مان لینے اور ہندوستان کے ایک اور سفر کا جوکھم اٹھانے کے سوا اب اور کوئی چارہ نہ تھا۔

سونے کی سات سو اشرفیوں اور چھے ساتھیوں کو لے کر مترجم اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ کئی روز تک راجا بھی اس کے ساتھہ رہا اور پھر وداع لینے سے پہلے ناگ-تسو کو آتیشا سے اس بات کی یاد دہانی کرانے کو کہا کہ، "یہ تبت کا باقی ماندہ سونا ہے اور میرے چچا تبت کے آخری بڑے آدمی تھے۔ اگر آتیشا کے دل میں دوسروں کے لیے ذرا بھی درد ہے تو انھیں لازماً آنا چاہیئے۔ اگر تبت کے وحشیوں میں دھرم کے تئیں اتنا لگاؤ ہے اور اس کے دل میں ذرا بھی لگاؤ نہیں، تو بدھ مت سچ مچ کمزور پڑ چکا ہے اور اب کوئی امید باقی نہیں رہی!" پھر راجا اپنے محل کی طرف واپس چلا گیا۔

ہندوستان کی طرف جاتے ہوئے، راستے میں وفد کی ملاقات ایک نوجوان لڑکے سے ہوئی جس نے پوچھا کہ اس سفر کا مقصد کیا ہے؟ جب اسے مقصد بتایا گیا تو وہ بہت خوش ہوا اور بولا۔ "تم اپنی تلاش میں کامیاب ہوگے اگر تم ہمیشہ اس دعا کو دوہراتے رہو، ' میں آوالوکیت-ایشور کے آگے آداب بجا لاتا ہوں اور ان سے محفوظ سمت کا طالب ہوں۔ میں اس سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ فاتح بودھ کا دھرم تبت میں پھلے پھولے۔" جب اس لڑکے سے یہ پوچھا گیا کہ وہ کون ہے، تو اس نے کہا، یہ بات انھیں مناسب وقت کے اندر معلوم ہو جائے گی!

بالآخر، مسافروں کا قافلہ ایک رات دیر گئے، وکرم شلا کی پرسکون خانقاہی یونیورسٹی جا پہنچا اور دروازوں کے سامنے ڈیرا ڈال دیا۔ اوپر ایک کمرے میں گیا-تسون-سینگ کا قیام تھا، وہ تبتی جس نے راجا یے-شے-وو کے دوسرے مشن کی قیادت کی تھی، جب اس نے اپنی بولی میں گفتگو کرتے ہوئے لوگوں کی آوازیں سنیں، تو اس نے بڑی حیرانی سے نیچے کی طرف دیکھا اور اس جماعت سے جس نے وہاں بسیرا ڈال رکھا تھا پوچھا کہ وہ کس لیے آئے ہیں؟ تبتوں نے پرجوش انداز میں اپنی کہانی سنائی اور یہ تک بتا ڈالا کہ ان کے مشن کا مقصد، دراصل خود آتیشا کو تبت لے جانا تھا۔ گیا-تسون-سینگ نے انھیں تنبیہہ کی کہ اس طرح کُھل کر اپنے مقصد کا اعلان نہ کریں۔ اس نے انھیں مشورہ دیا کہ اپنے ساتھہ لایا ہوا سونا گیٹ پر متعین لڑکے کے پاس چھوڑدیں اور اگلی صبح اس سے ملاقات کے لیے آئیں۔ مسافروں نے ایسا ہی کیا اور نو عمر لڑکے نے ان سے کہا کہ اب آرام کریں اور اس پر بھروسہ رکھیں۔

اگلے روز صبح سویرے لڑکے نے انھیں جگایا اور پوچھا کہ وہ آئے کس لیے ہیں۔ جب انھوں نے لڑکے کو سب کچھہ بتا دیا تو لڑکے نے جھنجلا کر کہا، "تم تبتی لوگ بولتے بہت ہو! تمھیں اس معاملے میں خاموش رہنا چاہیے۔ ورنہ بہت جھنجھٹ پیدا ہوگی۔ اہم باتیں جلد بازی میں نہیں کی جاتیں۔ ہمیشہ دھیرے دھیرے، احتیاط کے ساتھہ، اور چپکے چپکے کی جاتی ہیں!" پھر اس لڑکے نے ان کی سونے کی اشرفیاں واپس کیں اور خانقاہ کے وسیع میدانوں کی طرف ان کی رہ نمائی کی۔

اس جماعت کی ملاقات ایک بوڑھے شخص سے ہوئی جس نے صاحب سلامت کے بعد ان سے دریافت کیا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کس لیے آئے ہیں؟ ایک بار پھر تبتوں نے کچھہ بھی چھپانے کی کوشش نہیں کی اور بوڑھے شخص نے ان کی سرزنش کی، "اگر تم اسی طرح غیر محتاط رہے تو تم اپنا مقصد کبھی نہ پا سکوگے۔ اپنے مشن کا بیان صرف آتیشا سے کرو!" پھر انھوں نے مسافروں کو گیا-تسون-سینگ کا کمرہ دکھانے کی پیش کش کی۔ گرچہ وہ ایک چھڑی ٹیکتا ہوا دھیرے دھیرے چلتا تھا، تاہم اس کے ساتھہ قدم ملائے رکھنا ممکن نہ تھا کیونکہ وہ بھی، پہلے والے کم سن لڑکیوں کی طرح، آوالوکیت-ایشور کا ہی ظہور تھا اور ان کے مشن کی نگہبانی کر رہا تھا۔

اب تبتوں نے ایک لائحہ عمل کے مطابق آگے بڑھنے کا فی کیا۔ گیا-تسون-سینگ نے انھیں یہ کہنے کی ہدایت دی کہ وہ سنسکرت پڑھنے کے لیے آئے ہیں۔ "ہمارے سربراہ، بڑے رتناکر آتیشا کے نگراں ہیں اور ان کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ اگر انھیں تمھارے اصل مقصد کی بھنک مل گئی تو تو تمہیں آتیشا سے ملاقات تک کا موقعہ نہ دیں گے۔"

اگلی صبح تبتی مسافر سربراہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھیں اپنی آدھی اشرفیاں پیش کیں۔ انھوں نے سربراہ سے کہا کہ ماضی میں ان کے بہت سے ہم وطن اس ارادے کے ساتھہ ہندوستان آئے تھے کہ آتیشا جیسے ذی علم اساتذہ کو تبت آنے کی دعوت دے سکیں۔ بہر نوع، اب وہ پڑھنے کے لیے آئے ہیں تاکہ بجائے خود عالم بن سکیں۔ لائق احترام بڑے سربراہ نے یہ سن کر اطمینان کا سانس لیا اور کہا، " ضرور علم حاصل کیجیے۔ غلط مت سمجھیے۔ ایسا نہیں کہ میرے دل میں تبت کے لیے درد مندی کا جذبہ نہیں ہے، لیکن آتیشا ہمارے سب سے معروف اساتذہ میں ہیں بالخصوص بودھیچت اور اپنے عرفان اور اپنی بصیرت کے واسطے سے۔ اگر انھوں نے ہندوستان چھوڑ دیا تو خود بدھ فلسفی کے وطن میں ان کی تعلیمات کے پھیلنے کی امید باقی نہ رہے گی۔” بہر حال، سربراہ کو ان غیر ملکیوں یعنی تبتوں کی طرف سے ابھی بھی گہرا شک تھا، لہذا انھوں نے ان لوگوں کو آتیشا سے ملنے نہ دیا۔

ادھر تبتوں نے، یہ سوچ کر کہ ان کی ترکیب کارگر ہوئی ہے، جماعتوں میں شریک ہونے اور اپنا وقت گزارنے لگے۔ کئی مہینوں بعد، ایک اہم خانقاہی تقریب کا انعقاد ہوا۔ چونکہ سبھی سے اس تقریب میں شرکت کے لیے کہا گیا تھا، مسافروں کو امید تھی کہ بالآخر وہ آتیشا کی ایک جھلک تو دیکھہ ہی لیں گے، وہ دیکھتے رہے اور منتظر رہے اور بہت سے عظیم المرتبت اساتذہ تقریب میں آتے رہے۔ ان میں سے کچھہ، مثلاً مشہور ناروپا، مصاحبوں کے ایک وسیع جھُنڈ کے ساتھہ سامنے آئے۔ کيءوں کے آگے خدام کا جلوس تھا، عطر اور پھول لیے ہوئے۔ سب سے آخیر میں آتیشا نمودار ہوئے۔ انھوں نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے تھے، عبادت خانے اور گودام کی چابیاں اپنی کمر میں باندھے ہوئے۔ تبتوں کو ان کا یہ معمولی پھیکا رنگ ڈھنگ دیکھہ کر گہری مایوسی ہوئی اور انھوں نے گیا-تسون-سینگ سے پوچھا کہ کیا وہ آتیشا کہ جگہ، دوسرے ٹھاٹ باٹ والے اساتذہ میں سے کسی کو مدعو کر سکتے ہیں۔ گیا-تسون-سینگ نے جواب دیا "نہیں! آتیشا کا تبت سے بہت گہرا اور خصوصی تعلق ہے، اس لیے ان کی معمولی وضع قطع کے باوصف، تمھیں انہی کو واپس لانا ہوگا!"

آخر کار، ایک خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ ناگ-تسو نے منڈل کی نذر چڑھانے والی ایک گول رکابی میں سونے کی اشرفیوں کا اونچا ڈھیر جما کر آتیشا کو پیش کیا اور ان سے بتایا کہ تبت میں کس طرح مقدس دھرم کا زوال ہوا ہے۔ راجا یے-شے-وو کے بلیدان کی کہانی سناتے ہوئے اور چچا اور بھتیجے دونوں کی باتیں دوہراتے ہوئے، ناگ-تسو نے آتیشا سے تبت آنے کی گزارش کی۔

آتیشا نے ان سے کہا، وہ بہت مہربان لوگ ہیں اور آتیشا کو ذرا بھی شک نہیں کہ وہ سبھی تبتی راجا در اصل بودھی ستوا تھے۔ تبتوں کے مسائل کا علم ہے اور وہ خلوص دل سے راجا کی قربانی کے لیے ان کا احترام کرتے ہیں، لیکن ان لوگوں کو یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اب آتیشا کی عمر بڑھ رہی ہے اور خانقاہ کے گودام کی نگہبانی کرنے والے کی حیثیت سے ان کی ذمے داریاں کثیر ہیں۔ انھیں امید ہے کہ پھر کبھی آنا ممکن ہو سکے گا۔ سونے کی اشرفیاں انھوں نے وطن کو واپسی کے سفر کے لیے انھیں لوٹا دیں۔ آتیشا نے ان سے کہا، "وریں اثنا مجھے اپنے نجی یئدم سے مشورہ کر لینا چاہیئے۔”

اس رات عالم خواب میں آتیشا کو تارا کی زیارت ہوئی اور اس نے آتیشا کو بتایا کہ یہ سفر پوری طرح کامیاب ہوگا۔ تبتوں کے درمیان آتیشا کو ایک ایسا شاگرد ملے گا جسے ان سے خاص وابستگی ہوگی۔ وہ ایک "اُپاسک" ہوگا، عام آدمی کی عہد و پیمان رکھنے والا اور وہ دھرم کو مزید آگے تک لے جائے گا۔ "لیکن" تارا نے آتیشا سے کہا، "اگر تم ہندوستان میں ہی رہے تو تم بانوے برس کی عمر تک پہنچو گے، جب کہ تبت چلے جانے کی صورت میں تمھارا عرصئہ حیات بہتر برس کا ہوگا۔ آتیشا کے اندر اس اعتماد کا احساس جاگا کہ انھیں تبتوں کے ساتھہ چلا جانے چاہیے اور اس مقصد کی راہ میں بیس برسوں کی زندگی قربان کی جا سکتی ہے اگر واقعی اس سے دوسروں کو فیض پہنچتا ہے۔ انھیں اپنے چالاک سربراہ سے رخصت حاصل کرنے کے لیے کچھہ اور ذہانت آمیز طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔"

پہلے، آتیشا نے وکرم شلا کے مشرق، جنوب اور مغرب کے سمتوں میں جاترا ،مذہبی زیارت، کی اجازت طلب کی۔ یہ درخواست قبول ہوئی اور انھوں نے متعدد مذہبی مقامات کی زیارت کی۔ پھر انھوں نے شمال کی سمت بھی اسی طرح کا سفر کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن سربراہ نے ان کے خفیہ منصوبے کو بھانپ کر انکار کر دیا۔

تبتی وفد کو زبردست مایوسی ہوئی اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے سربراہ کو سچ مچ پوری بات بتا دیں۔ اس مہارت یافتہ بزرگ نے دکھاوے کی خفگی کا اظہار کیا اور تبتوں نے فوراً دو زانو ہو کر معافی کی درخواست کی۔ "میں آتیشا کو تمھارے سپرد کیوں نہیں کر رہا ہوں اس کی وجہیں وہی ہیں جو پہلے تھیں۔" سربراہ نے کہنا شروع کیا " لیکن چونکہ تبت کی ضرورت شدید ہے، اس لیے میں اس بات پر راضی ہوں کہ تمہاری سرزمین پر آتیشا کو تین مہینے کے قیام کی اجازت دے دوں۔ بہر حال، تم لوگ یہ وعدہ کرو کہ یہ مدت ختم ہونے پر تم انھیں ہندوستان واپس بھیج دوگے۔" خوشی سے مغلوب ہو کر، تبتوں نے یہ وعدہ کر لیا۔

تبت میں دھرم کی اصلاح کرنا اور اسے مستحکم کرنا

اس طرح، تریپن برس کی عمر میں، آتیشا نے برف کی سرزمین کے لمبے سفر کی شروعات کی۔ راستے میں، مترجم گیا-تسون-سینگ کو بیماری نے آلیا اور ان کا انتقال ہو گیا۔ آتیشا نے مترجم کی موت پرکہا، "میری زبان کٹ گئی!" اس پر ناگ-تسو عاجزی کے ساتھہ ان کے آگے جھک گئے اور بولے، " براہ کرم پریشان مت ہوئیے۔ گو کہ میری سنسکرت کمال کی تو نہیں، پھر بھی، یقیناً بہتر ہوگی۔ علاوہ اس کے، آپ کی خدمت کے لیے کچھہ اور لوگ بھی ہیں!"

نیپال میں ان کی ملاقات چشم کشا مترجم مارپا (۱۰۱۲ء -۱۰۹۹ء) سے ہوئی جو تیسری مرتبہ ہندوستان کے سفر پر تھے۔ آتیشا نے انھیں اپنا ترجمان بننے کی دعوت دی، لیکن مارپا نے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ "یہ خواہش میرے استاد کی تھی کہ میں تین بار ہندوستان کا سفر کروں۔ اب، مجھے یہ آخری سفر کرنا ہی ہوگا۔” ان کی ملاقات معمّر مترجم رنچن-زانگپو سے بھی ہوئی، لیکن وہ بھی مدد کرنے سے معذور تھے۔ "جیسا کہ تم میرے سفید بالوں کو دیکھہ کر سمجھہ سکتے ہو، میں بہت بوڑھا ہوں۔ میں نے زندگی بھر گہری ریاضت کا موقعہ پائے بغیر کام کیا ہے۔" چنانچہ آتیشا آگے بڑھتے رہے، ناگ-تسو کی محدود صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے کی مجبوری کے ساتھہ!

دو سال کا سفرطے کرنے کے بعد، یہ جماعت بالائی تبت (مغربی تبت) کے شہر نگاری پہنچی جو یے-شے-وو کی مملکت کا دارالسلطنت تھا ۔ وہاں کے باشندوں اور راہبوں نے ایک لمبا جلوس نکالا اور آتیشا کو پاس کی پرسکون اور خاموش خانقاہ میں ٹھہرنے کی دعوت دی۔ ہندوستانی گرو فاتح بودھ کی تعلیمات کے اس پُر اشتیاق رویے پر خوشی سے مغلوب ہو گیا اور اسے ایک روحانی سالک کی خلعت و لباس اختیار کرنے والوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھہ کر انتہائی حیرت ہوئی۔ تبت کے طول و عرض سے بہت بڑی تعداد میں علما تشریف لائے تھے۔ دانائے کُل بودھ کے سوتروں اور تنتروں کے بارے میں ان کے سوالات کی گہرائی اور بصیرت دیکھہ کر غیر معمولی طور پر متاثر ہوا۔ اسے حیرانی اس واقعے پر تھی کہ جب ذی علم اساتذہ کی اتنی بڑی تعداد موجود تھی تو انھیں صرف ایک استاد کو مدعو کرنے کے لیے ایسی صعوبت اٹھانے کی ضرورت کیا تھی؟ بہر حال، اس نے جس وقت پلٹ کر یہ سوال کیا کہ جب احتیاطی تدابیر کے یہ دو زمرے مل کر ایک ہی مربوط و منظم کُل کی تشکیل کرتے ہیں تو ایسا کیوں ہوا کہ وہ اس کا جواب نہ دے سکے۔ اب آتیشا نے ان کے مشن کا مقصد سمجھہ لیا!

ایک روز راجا جانگ-چوب-وو نے تبت کے لوگوں کے لیے کسی تلقین و ہدایت کی درخواست کی۔ اس نے کہا، ہم کسی ایسی تلقین و ہدایت کے طلب گار نہیں ہیں جو اتنی وسیع اور گہری ہو کہ اسے اختیار کرنا ناممکن ہو جائے۔ ہمیں ضرورت ایسی باتوں کی ہے جو ہمارے دماغوں کو سدھا سکیں اور ہمیں اس قابل بنا سکیں کہ ہم اپنے روز مرہ عمل، کرم، میں انھیں اپنا سکیں اور ان سے کچھہ نتیجہ بھی نکلے۔ جناب عالی! براہ کرم ہمیں وہ طریقے سمجھائیے جنھیں خود آپ نے برتا ہے۔"

راجا کی اس درخواست کی سادگی اور خلوص سے آتیشا اتنے متاثر ہوئے کہ آئندہ برسوں میں وہ راجا کا تذکرہ ہمیشہ "میرا غیر معمولی اور بہترین شاگرد کہہ کر کرتے تھے۔ راجا نے اگر تنتر نظام کے لئے اعلی درجے کی عطاء اختیار یا خصوصی کرامات پیدا کرنے کی صلاحیت طلب کی ہوتی تو آتیشا کو اس سے بہت کم خوشی ہوئی ہوتی۔ خیر، اس طرح انھوں نے نگاری میں اپنے تین برس وعظ دیتے ہوئے گزارے اور ان مواعظ کا مجموعہ "روشن ضمیری کا راستہ پانے کے لیے ایک چراغ" مرتب کیا جو اس موضوع پر مستقبل کے تمام متون کے لیے ایک ماڈل بن گیا۔

لوگوں سے اپنی گفتگو کے دوران وہ جن نکات پر ہمیشہ زور دیتے تھے، ان کے باعث لوگ انھیں "محفوظ سمت بتانے والا پُر جلال استاد (لامہ پناہ)" اور "جبلّی طرزِ عمل اور اس کے نتائج کی آگہی بخشنے والا پر جلا استاد (لامہ علت و معلول)" کے القاب سے پکارنے لگے۔ آتیشا کو اس سے بے حد خوشی ہوئی اور انھوں نے کہا، " ایسے ناموں سے مخاطب کیا جانا بھی بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔”

اِس پورے عرصے میں، آتیشا کی نظر اعزاز بخش اور ہر عیب سے عاری معزز تارا کی پیش گوئی کے مطابق، آتیشا کے اس آئندہ شاگرد رشید کے ظہور پر لگی رہی، جو تبت کا ایک عام آدمی ہوگا، لیکن وہ ابھی تک سامنے نہیں آیا تھا۔ ایک دن ایک سرپرست کے گھر سے اس ہندوستانی کو دن کے کھانے کا دعوت نامہ ملا، اور چونکہ وہ ایک پکا سبزی خور تھا، اس لیے اُس کے سامنے جَوکی روایتی سینکی ہوئی ٹکیاں )تسمپا( پیش کی گئیں۔ رخصت ہوتے وقت اس نے چند اور ٹکیوں نیز تھوڑے سے مکھن کی فرمائش کی۔ عین اُسی وقت وہ لائق احترام اپاسک، ڈروم-تونپا (۱۰۰۴ء – ۱۱۶۴ء( جو ایک عام آدمی تھا، آتیشا کے گھر آن پہنچا۔ اس نے خدمت گاروں سے پوچھا "میرا شان و شکوہ والا پر جلال مہایان گرو کہاں ہے؟" انھوں نے جواب دیا، "آتیشا اپنے سرپرست کے ساتھہ دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔ اگر آپ یہاں انتظار کر سکیں تو وہ بس ذرا دیر میں واپس آجائیں گے!"

ڈروم-تونپا انتظار نہ کرسکے بلکہ تیزی کے ساتھہ آتیشا کے اس سرپرست کے گھر کی طرف بھاگے ۔آتیشا اور ڈروم-تونپا راستے کی ایک گلی میں ہی مل گئے۔ گو کہ انھوں نے ایک دوسرے کو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے باوجود دونوں نے ایک دوسرے کو، اپنے پچھلے جنموں کے گہرے تعلق کی بنا پر، فوراً پہچان لیا۔ ڈروم-تونپا نے سجدۀ تعظیمی ادا کیا اور آتیشا نے جَو کی ٹکیاں پیش کرتے ہوئے کہا، " یہ تمھارا دن کا کھانا ہے۔ تم بہت بھوکے ہوگے۔” عام آدمی ڈروم-تونپا نے جو کی ٹکیاں کھا لیں اور مکھن کا استعمال ایک چراغ جلانے کے لیے کیا تاکہ اپنے نو دریافت روحانی گرو کو نذرانے کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ اس روز کے بعد سے، ہر رات، بلا ناغہ، ڈروم ٹونپا نے اپنے گرو کو ایک چراغ کا نذرانہ پیش کیا۔

نگاری میں تین برس کی مدت گزارنے کے بعد، آتیشا نے اپنے مترجم ناگ-تسو کے ساتھہ ہندوستان کو واپسی کے سفر کا آغاز کیا۔ لیکن نیپال کی سرحد پر ایک جنگ نے ان کی راہ روک لی۔ ناگ-تسو بہت پریشان ہوئے کیونکہ اب ان کے لیے وکرم شلا کے سربراہ سے اپنے وعدے کو پورا کرنا ناممکن سا نظر آتا تھا۔ یہ کہتے ہوئے کہ "ایسے حالات پر متفکر ہونا جو ہمارے قابو سے باہر ہوں بے کار ہے" آتیشا نے فوراً اپنے اندیشوں کو ٹھنڈا کر دیا۔

چین کا سانس لے کر، ناگ-تسو نے وکرم شلا کے سربراہ کو ایک چٹھی بھیجی، اس بات کی وضاحت کے ساتھہ کہ کس طرح ان کے نیک ارادوں پر پانی پھر گیا تھا۔ اپنی غیر حاضری کی جزوی تلافی کے طور پر، آتیشا نے اپنے مواعظ "روشن ضمیری کا راستہ پانے کے لیے ایک چراغ" کی ایک نقل بھجوا دی۔ انھوں نے اپنی باقیماندہ زندگی تبت میں ہی گزار دینے کی اجازت بھی طلب کی اور پھر وہ نگاری واپس چلے گئے۔

موجودہ دنوں میں کسی کتاب کا شایع کرنا مقابلۃً ایک سیدھا سادا تجارتی عمل ہے۔ لیکن آتیشا کے زمانے میں، بہر نوع، کسی مسودہ کی اشاعت سے پہلے اسے مقامی راجا کی صدارت میں علما ء کی ایک مجلس کے کڑے امتحان سے گزرنا ہوتا تھا۔ اگر اس مسودے میں کسی طرح کی تھوڑی سی کمی بھی پائی جاتی تو اسے کتے کی دُم میں باندھ کر دھول مٹی میں کھینچا جاتا تھا جب کہ اس کے مصنف کو تعریف و تحسین اور شہرت کے بجائے عام رسوائی اور ذلت کی شرمندگی بھگتنی پڑتی تھی۔

آتیشا کی کتاب کے متن کو اس چانچ پڑتال سے گزرنا پڑا اور علما ء کی مجلس نے اتفاق رائے سے اس کی غیر معمولی علمی وقعت پر اپنی رضا مندی ظاہر کی۔ مجلس کے صدر راجا نے تو اپنے تاثر کا اظہار اس طرح کیا کہ اس کتاب کے متن سے صرف بے خبر تبتوں کو ہی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ ذہن رسا رکھنے والے ہندوستانی بھی اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ وکرم شلا کے سربراہ نے اس متن کا مطالعہ کرنے کے بعد مترجم ناگ-تسو کو خط لکھا کہ "مجھے اب تبت میں آتیشا کے مقیم رہ جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انھوں نے جو کچھہ لکھا ہے، ہم سبھی اس سے مستفید ہوئے ہیں۔ میرے گزارش بس یہ ہے کہ آتیشا اب اس متن کی شرح مرتب کر کے ہمیں بھجوا دیں۔" لہٰذا اس طرح، اس اہم متن کے مشکل نکات کی تشریح، جو خود آتیشا نے کی تھی ضبط تحریر میں آسکی۔

جلد ہی ڈروم-تونپا نے آتیشا کو مرکزی تبت کے مزید شمال کی سمت سفر کرنے اور لہاسا آنے کی دعوت دی۔ راستے میں، انھوں نے تبت میں تعمیر کی جانے والی پہلی خانقاہ سامیے میں قیام کیا۔ آتیشا کتب خانے میں سنسکرت اور تبتی کتابوں کے ذخیرے کو دیکھہ کر بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ انھیں یہ گمان نہ تھا کہ ایسے قیمتی سنسکرت بدھ متون کی اتنی بڑی تعداد موجود ان دنوں ہندوستان تک میں موجود ہوں گے۔

مجموعی طور پر، برف کی سر زمین میں آتیشا نے سترہ برس گزارے۔ تین برس نگاری میں، نو برس لہاسا کے پاس نیے-تانگ میں اور پانچ برس دوسرے مختلف مقامات پر، تاآنکہ تارا کی پیش گوئی کے مطابق، بہتر سال کی عمر کو پہنچ کر ۱۰۵۴ء میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ آتیشا کی میت کو مومیانے کے بعد نیے-تانگ کی ایک سمادھی میں رکھہ دیا گیا۔ اور پھر اس کے دو برس کے بعد آتیشا کے شاگرد رشید اس لائق احترام عام آدمی ڈروم-تونپا نے وہ پرسکون اور شانت را-ڈرنگ خانقاہ قائم کی جسے کدم روایت کے سب سے اہم مرکز کا درجہ ملا اور جس نے اپنے گروؤں کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔

مترجم ناگ-تسو نے یاد کیا کہ آتیشا کے ساتھہ اس نے جو طویل عرصہ گزارا تھا، اس کے دوران کبھی بھی، آتیشا نے نہ تو کوئی ناخوشگوار بات منھہ سے نکالی، نہ ہی ان سے کوئی ایسا عمل سرزد ہوا۔ سوتروں اور تانتروں کے ایک مربوط و منظم راستے کی تعلیم دیتے ہوئے، اس عظیم ہندوستان گرو نے تبت میں سب پر غالب آنے والے فاتح بودھ کے مکمل دھرم کی اصلاح اور اشاعت کا بہت بڑا کام انجام دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ انہی کی مہربانی سے یہ مقدس روایت، اپنے اصل روپ میں، آج تک زندہ اور باقی ہے۔

Top